حال ہی میں چین کی ایک سائبر سیکیورٹی کمپنی آئی سون کا ڈیٹا بڑے پیمانے پر لیک ہوا ہے جس سے یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ کس طرح انٹرنیٹ سیکیورٹی کے لیے کام کرنے والی ایک کمپنی خود ہی ہیکنگ میں ملوث تھی۔
یہ ہیکنگ پڑوسیوں سمیت دنیا کے کئی ممالک کے سرکاری اور غیرسرکاری اداروں میں کی گئی، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، جو چین کا ایک قریبی د وست ہے۔
ہیکنگ کی ان کارروائیوں کا پتہ کمپنی کے کارکنوں اور اس کے سپروائزوں کے درمیان ہونے والی اندرونی چیٹ سے چلتا ہے، جو لیک ہونے والے ڈیٹا میں شامل ہے۔
آئی سون نے ابھی تک یہ تصدیق نہیں کی کہ اس کا لیک ہونے والا ڈیٹا اصلی ہے یا نہیں۔ تاہم اب یہ لیکس انٹرنیٹ سے ہٹائی جا چکی ہیں۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کا کہنا ہے کہ اس سائبر سیکیورٹی فرم نے تبصرے کے لیے بھیجی گئی درخواست کا ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
آئی سون کی لیک ہونے والی چیٹس بڑی دلچسپ ہیں۔ ان میں غیرملکی حکومتوں کی ہیکنگ کے دعوؤں کے ساتھ ساتھ دفتری امور اور طریقہ کار کی تصویر بھی سامنے آتی ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کارکنوں کو کمپنی سے شکایات عام ہیں۔
چیٹس میں عملے کے ارکان بڑا شکار کرنے پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان چیٹس میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے پاکستان، قازقستان، منگولیا، تھائی لینڈ اور ملائیشیا کی ٹیلی کام کمپنیوں کے سرورز میں گھس کر بڑا ہاتھ مارا ہے۔
چیٹس میں بھارت کو، جو چین کا سب سے بڑا جغرافیائی سیاسی حریف ہے، اہم ترین ہدف قرار دیا گیا ہے۔
آئی سون کی ہیکنگ کا نیٹ ورک چین کی سرحدوں سے باہر ہی نہیں بلکہ ملک کے اندر ان علاقوں تک پھیلا ہوا ہے جسے بیجنگ حساس سمجھتا ہے۔
ان میں ہانگ کانگ اور خودمختار تائیوان شامل ہے جسے چین اپنا حصہ کہتا ہے، وہاں ہیکنگ کا دائرہ تعلیمی اداروں تک پھیلا ہوا ہے۔