مادری زبانوں کے عالمی دن کے حوالے سے بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے ڈگری کالج پنجگور میں تقریب بیاد مبارک قاضی منعقد ہوئی ۔
پروگرام دو حصوں پر مشتمل تھا پہلے حصے میں مادری زبانوں کے عالمی دن کے حوالے سے مقررین نے اپنے اپنے مقالے پڑھے جبکہ دوسرے حصے میں شعراءنے اپنے اپنے اشعار پیش کئے۔
اس دوران اسٹیج کے فرائض نوجوان لکھاری عطاءمہر نے سرانجام دیے ۔
تقریب میں مبارک قاضی کی زندگی کے بارے میں ایک ڈاکو منٹری بھی پیش کیا گیا۔
اس دوران عزت اکیڈمی کے سربراہ ملا مراد، ظہورِ زیبی ،اکبر غمشاد، عزت اکیڈمی کے سابق صدر خدارحم بلوچ، اقبال ظہیر،کامل بلوچ زوہیب اور دیگر نے کہا کہ کسی بھی قوم کی شناخت اسکی زبان ہوتی ہے زبان کے بغیر قوموں کا وجود نامکمل ہے ہمیں خود اپنی زبان اور ثقافت کی رکھوالی کرنا ہے جسم کی پہچان سر ہے مگر افسوس بلوچ اپنی زبان اور پہچان سے غافل ہے یہ بڑا المیہ ہے۔ آج باقی دنیا اپنی مادری زبانوں کے موضوع پر تقاریب اور پروگرام منعقد کررہے ہیں ایک ہم ہیں جو اپنے وجود سے بھی دور بھاگ رہے ہیں اور ایک طرح سے اپنی زبان سے باغی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومیتوں کو وہ تمام ضروریات اور مواقع فراہم کریں جس سے وہ اپنی زبان کو آگے لے جاسکیں اور مادری زبانوں میں ایجوکیشن حاصل کریں 1988 میں اقوام متحدہ نے قرارداد پیش کی کہ قوموں کی مادری زبانوں کا دن منایا جائے گا۔ بلوچ پارلیمنٹرین کو چائیے تھا کہ وہ بلوچستان میں اپنے قومی زبان کو پروموٹ کرتے اور بلوچستان میں قومی زبان بلوچی کو قرار دلاتے۔
انہوں نے کہاکہ تعلیم یافتہ طبقے کا فرض بنتا ہے کہ بلوچی پڑھیں اور زبان کے تحفظ اور فروغِ کے لئے کام کریں حکومت کو چاہیئے کہ پرائمری سے بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دے تاکہ ان میں خود اعتمادی پیدا ہو مادری زبان کے بغیر بچے اپنی زبان سے ناواقف ہوتے ہیں بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دینا چاہیئے ۔
انہوں نے کہا کہ بہت سے ممالک نے قومی زبان کے سیکشن پر دستخط کرنے کے بعد عمل درآمد کیا ہے مگر ہمارے ملک میں اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا ہے ہمسایہ ملک میں 80 مادری زبانوں میں تعلیم دی جارہی ہے اور مختلف زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیاگیا ہے جنوبی افریقہ جیسے پسماندہ ملک میں 11زبانوں کینیڈا میں بھی ناروے میں 70 زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے اردو بھی ان میں شامل ہے، زبان سے قوم کی پہچان ہوتی ہے، زبان کے تحفظ کے لیے ہر فرد کو جہدوجہد کرنا چاہیے۔ بلوچی زبان حکومتی سرپرستی سے محروم ہے، اس ترقی یافتہ جدید دور میں بلوچی زبان زبوں حالی کا شکار ہے ۔
زوہیب بلوچ نے مبارک قاضی کی زندگی اور شاعری پر روشنی ڈالی اورکہا کہ مبارک قاضی نے اپنے پوری زندگی بلوچی زبان کی ترویج وترقی اور خدمت میں گزارا۔
پروگرام کے دوسرے حصے میں شعراءنے اپنے اپنے کلام پیش کئے ۔ان میں پروفیسر اکبر غمشاد ظہور زیبی شاہی بلوچ علم خان، نجیب قاضی، زبیر واھگ، ولی نور خدارحم پروفیسر اکبر غمشاد۔ نادر نثار اور دیگر نے دیوان کو محفوظ کیا۔