آسٹریلیا کے 86 ارکان پارلیمان نے اس تحریک کے حق میں ووٹ کیا، جس میں جولین اسانج کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے، جبکہ 42 نے اس تحریک کی مخالفت کی۔ اس میں کہا گیا کہ اسانج کو گھر آنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
جولین اسانج کی ایک اہم سماعت سے قبل آسٹریلیا کی پارلیمان نے ایک قرارداد منظور کی، جس میں امریکہ اور برطانیہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جولین اسانج کو رہا کر دیں۔
وزیر اعظم انتھونی البنیز نے اس تحریک کی حمایت کی، جو سن 2022 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی جولین اسانج کیس کو نتائج تک پہنچنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے گزشتہ اکتوبر میں سرکاری دورے کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ بھی اس معاملے کو براہ راست اٹھایا تھا۔ اس سے پہلے مختلف جماعتوں کے آسٹریلوی ارکان پارلیمان کے ایک وفد نے واشنگٹن کا دورہ کیا تھا، تاکہ جولین اسانج کی آزادی کے لیے امریکی قانون سازوں کے ساتھ لابنگ کی جا سکے۔
جولین اسانج امریکہ کی حوالگی کے خلاف اپنی آخری اپیل کے لیے آئندہ ہفتے برطانیہ کی ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہونے والے ہیں اور آسٹریلوی پارلیمان کی یہ اپیل اس سے پہلے کی گئی ہے۔
آسٹریلیا کے اٹارنی جنرل مارک ڈریفس کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس معاملے کو اپنے امریکی ہم منصب میرک گارلینڈ کے ساتھ گزشتہ ماہ واشنگٹن میں ایک میٹنگ کے دوران اٹھایا تھا۔
مارک ڈریفس نے ایک بیان میں کہا، یہ ایک نجی بات چیت تھی، تاہم مسٹر اسانج کے بارے میں اس حکومت کا موقف بہت واضح ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس معاملے کو ختم کیا جائے۔
وکی لیکس کے بانی جولین اسانج سن 2010 اور 2011 میں ہزاروں خفیہ دستاویزات شائع کرنے کے لیے مطلوب ہیں۔ ان سے متعلق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی اور زندگیوں کو خطرے میں ڈالا۔
آسٹریلوی شہری جولین اسانج فی الوقت لندن کی بیلمارش جیل میں قید ہیں اور جاسوسی کے الزام میں امریکہ کو مطلوب ہیں، جہاں انہیں 175 برس قید کی سزا کا سامنا ہے۔
البتہ اسانج کی طویل عرصے سے یہ دلیل رہی ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ سیاسی محرکات پر مبنی ہے۔ ان کی قانونی ٹیم کا کہنا ہے کہ اگر انہیں امریکہ بھیجا گیا تو اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ اپنی جان لے سکتے ہیں۔