میانمار میں باغی آرمی کا 42 قصبات کو قبضے میں لینے کا دعویٰ

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

میانمار میں فوجی حکومت کیخلاف صف آراء باغی گروپ اراکان آرمینے ایک اور سرحدی قصبے پر قبضے کا دعویٰ کرتےہوئے کہا ہے اب تک ملک بھر کے 42 قصبات کو فوجی حکومت کے قبضے سے چھین لیا گیاہے۔

مغربی رکھائن صوبے میں سرگرم نسلی مسلح گروپ اراکان آرمی نے بھارت اور بنگلہ دیش کی سرحد سے ملحق ایک قصبے پر کنٹرول کرلینے کا دعویٰ کیا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں باغیوں کے خلاف لڑائی میں فوجی حکومت کی یہ ایک بڑی شکست ہے۔

میانمار میں سن 2021 میں فوجی بغاوت کے ذریعہ ایک منتخب حکومت کو اقتدار سے معزول کر دینے کے بعد سے فوجی جنتا کو ملک میں مختلف محاذوں پر مخالفین کا سامنا ہے۔ کئی سیاسی جماعتوں نے فوجی جنتا کے خلاف ایک متوازی اتحادی حکومت قائم کرلی ہے اور انہوں نے ملک کے مختلف قصبوں پر فوجی چوکیوں پر کنٹرول کرلیا ہے۔

اراکان آرمی کے ایک ترجمان نے گزشتہ روز بتایا کہ اس نے بھارت اور بنگلہ دیش کی سرحد سے ملحق پالیٹوا قصبے کو فتح کرلیا۔ کلادان ندی کے کنارے واقع یہ قصبہ پڑوسی ملکوں کے ساتھ تجارت کا ایک اہم راستہ ہے۔

اراکان آرمی کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس تقریباً تیس ہزار مسلح جوان ہیں اور یہ حکومت مخالف سہ جماعتی اتحاد ‘برادر ہڈ الائنس’ کا حصہ ہے۔ اس اتحاد میں میانمار ڈیموکریٹک الائنس آرمی اور تآنگ نیشنل لبریشن آرمی بھی شامل ہے۔ انہوں نے اکتوبر کے اواخر سے فوج کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ملک بھر میں اب تک 42 قصبات کو فوجی قبضے سے چھین لیا ہے۔

اراکان آرمی نے ایک بیان میں کہا، "پورے پالیٹواعلاقے میں اب فوجی کونسل کا ایک بھی کیمپ باقی نہیں بچا ہے۔ ” اراکان آرمی کے ترجمان نے کہا کہ پورے پالیٹوا علاقے پر رکھائن آرمی نے کامیابی سے کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور گروپ جلد ہی علاقے میں انتظامیہ اور قانون کے نفاذ کو بھی اپنے ہاتھوں میں لے لے گی۔

گروپ نے اپنے میڈیا پیج پر بیان کے ساتھ تصویریں بھی پوسٹ کی ہیں جن میں اراکان آرمی کے فوجیوں کو گروپ کے جھنڈے کے ساتھ اہم انتظامی عمارتوں کے سامنے اپنے ہتھیاروں نیزفوجیوں سے ضبط کیے گئے ہتھیار، گولہ بارود اور فوجی سازو سامان کے ساتھ پوز دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

اراکان آرمی کے ترجمان نے مزید کہا کہ "جہاں تک سرحدی استحکام کا معاملہ ہے تو ہم اس سلسلے میں پڑوسی ملکوں کے ساتھ ممکنہ طور پر بہتر تعاون کریں گے۔”

فوجی جنتا نے پالیٹوا کی صورت حال پر فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

Share This Article
Leave a Comment