پاکستانی ریاست کے قبضہ کے خلاف آغا عبدالکریم خان سے لیکر آج 75 سال گزرنے کے باوجود بھی آزادی کی جدوجہد ایک منظم تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ بلوچ قوم نے اپنی دفاع آزادی اور سلامتی کے لئے روزاول سے زرین قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہے۔غیر فطری ریاست پاکستان نے طاقت کے زور پر جب بلوچستان پر قبضہ کیا تو روز اول سے ہی کچھ مقامی بلوچ سرداروں اور نوابوں کو اپنے ساتھ ملاکر اپنے قبضہ کو توسیع دی اور انہیں اجرت اور وظائف دے کر اپنی نمائندے ایجنٹ کے طورپران سے کام لیتا رہاجو آج بھی ریاست کی گود میں پل کر بلوچ قومی تحریک کو برابرنقصان دے رہے ہیں۔
یہی نواب و سردار، میر اور ان میں سے کچھ قوم پرستی کا لبھادہ اوڑھ کربلوچ تحریک سے منسلک دوستوں کی جبری گمشدگیوں،ان کے گھروں کی نشاندہی ومخبری میں ملوث ہیں۔ یہ بوٹ پالشیہ نواب و سرداربظاہر بلوچ کا نام لے کر سیاست کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں لیکن اندر سے ان میں بلوچیت کچھ بھی نہیں۔یہ صرف اپنے بینک بیلنس خاندانی عہدوں اور مراعات میں اضافہ کے لے ریاست کی دلالی کررہے ہیں۔ قابض ریاست ہمیشہ انہی تنخواخور کٹھ پتلیوں کے ذریعہ بلوچستان پر حکمرانی کرتی چلی آرہی ہے اور انہی کے ذریعہ عالمی دنیا کا اعتماد لے رہاہے کہ بلوچ قوم ان کے ساتھ ہے لیکن حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ قابض ریاست نے پارلیمنٹ کے ذریعہ بلوچ قوم کے استحصال اور غلامی میں شدت پیدا کی ہے، یہ فارمی سردار نواب و قوم پرست نیشنل پارٹی اور بی این پی پاکستانی ریاست کے آلہ کار بن کر ظلم و جبر اور سہولت کاری کے لیے ریاست کو آسان مواقع فرائم کررہے ہیں۔
یہی کاسہ لیس ریاستی اداروں کے اشاروں پر فلسطین، کشمیراور شام کے لئے ریلی اور جلسوں میں آگے آگے ہیں۔لیکن اپنے وطن میں قابض کے خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری طور پر لاپتہ افراد کی ماؤں اور بہنوں کی آواز سننے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔گزشتہ سال 23 نومبر کو نام نہاد سی ڈی ٹی جو خفیہ اداروں کا مہرہ ہے، تربت میں ایک جعلی مقابلے میں بالاچ سمیت تین معصوم بلوچوں کو شہید کرتاہے۔ بالاچ جسے غائب کرکے اچانک ریاستی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے ان پر پانچ کلو دھماکہ خیز بارودی موادرکھنے کا الزام لگاکر عدالت سے دس دن کا ریمانڈ لینے کے بعد ایک جعلی مقابلہ میں شہید کیا جاتاہے۔
جس سے کیچ میں شہید کی جسد خاکی کو رکھ کر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے جو آگے چل کر لانگ مارچ کی شکل اختیار کرکے اسلام آباد کا رخ کرتاہے۔ اس دوران ایک ریاستی ملاء بالاچ کی نماز جنازہ کو متنازع بنانے کی مکروہ کوشش کرتاہے۔لیکن مولوی عبدالحق کے بیٹے شاہ جی صغبت اللہ نے اس ملاء کے فتوے کو رد کرتے ہوا نمازہ جنازہ میں نہ صرف شرکت کرتا ہے بلکہ لوگوں کو اسلام کی اصل روح سے بھی آشنا کرتا ہے۔ ان کی انہی کوششوں کی بدولت بالاچ شہید کے اس جنازے میں انسانوں کا سمندر امڈ آتی ہے۔ اور مکران کا یہ تاریخی جنازہ، اجتماع بن جاتاہے، یہ جنازہ ایک جدوجہد بن جاتی ہے جو تربت سے پنجگور، خضدار، قلات اور شال سے ہوتا ہوا کوہلو، رکھنی اور ڈیرہ غازی خان تک بلوچ کا مرکز بن جاتاہے۔ راستہ میں ہر جگہ اس کا شاندار استقبال کیا جاتاہے پیر و ورنا، خواتین اور بچے خراج عقیدت کے طور پر گھروں سے نکلتے ہیں۔
لیکن مجال ہے دوسرے سرداروں کو ایک طرف رکھیں مینگل۔سردار جو ساحل وسائل اور بلوچ حقوق کی بات کرتاہے گھر اور گرم بسترسے نکلنے کی زحمت کرتا البتہ خضدار میں وہ اور کوئٹہ میں اس کے پارٹی کے کچھ لوگ اپنی شان بڑھانے کی ناکام کوششوں میں مصروف نظرآئیں، اور یہ بھی ایک حقیقت بن چکی ہے کہ ان کی پارٹی کی جانب سے مارچ کا استقبال تک نہیں کیا جاتاہے۔ خضدار سے نکلنے کے بعد جب مارچ سوراب پہنچ جاتاہے تو راستے میں ریاست کنٹینر کھڑی کرکے ان کو روکنے کے کوشش کرتاہے۔ ریاستی پولیس شرکاء کو منتشر کرنے کے لئے ان پر تشدد کرتے ہیں، انہیں لہو لہان کیا جاتاہے۔ لیکن یہ مائیں تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے ریاستی فورسز اور ڈیتھ سکواڈ کے جتھوں کو شکست دے کر قلات پہنچ جاتے ہیں۔ قلات میں عام بلوچوں کی جانب سے ان کا شاندار استقبال کیاجاتاہے ان کو بلوچی گد”شال“ تحفتا دیا جاتاہے لیکن رسم دستار بندی کے مرکز قلات جو بلوچ کے والئین ریاست کا مرکز اور بلوچستان کا دار الخلافہ رہاہے یہاں کے خان اور خان برادری اپنے محل سے نکلنے کی ہمت نہیں کرسکتے ۔بلوچ مارچ جب مستونگ پہنچ جاتاہے تو یہاں بھی عام عوام تاریخی استقبال کے لئے سرد موسم میں کھڑے رہتے ہیں لیکن یہان کے نواب و سردار جن کے گھر آرسی ڈی سے اتنی فاصلہ پہ نہیں کہ وہ اس مارچ کا استقبال کرنے کے لئے نہ آسکے، پر انے کی زحمت تک نہیں کرتے۔
شال پہنچنے کے بعد چار دن سریاب میں جب دھرنا جاری رہتاہے تو یہ سردار ریاست کے کاسہ لیسی سے فارغ ہی نہیں ہوتے کہ وہ دھرنا گاہ پہنچ کر اظہار یکجہتی کریں۔بلکہ وہ ریاست کے ڈھونگ الیکشن کے لئے کمپیئن میں مصروف ہوتے ہیں۔ انہیں ان ماؤں اور بہنوں کے سفر، تکلیف اور مشقت سے لبریز جدوجہد بلکل دکھائی نہیں دیتی۔ اس سارے دورانیہ میں وہ اپنی سرشت یعنی بگی کھینچنے والے کردار سے ہٹ کر ایک لمحہ کے لئے بھی بلوچ نہیں بنتے۔
بلوچ لانگ مارچ کا یہ سفر جب شال سے الوداعی رخصتی کے مناظر طے کرتے ہوئے آگے کا سفر جاری رکھتا ہے تو کوہل،و رکھنی، بارکھان، تونسہ اور ڈیرہ غازی خان تک بلوچ عوام ان کا والہانہ اور تاریخی استقبال کرتاہے جو بلوچ کے نام پر سیاست کرنے والے پارلیمانی سیاستدانوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ بلوچ عوام نے اپنی شعوری یکجہتی کے ساتھ ثابت کردیا کہ اب قبضہ گیری کے دن کم رہ گئے ہیں۔
اگرچہ اسلام آباد تک مارچ کو جگہ جگہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، ڈیرہ غازی خان سے مارچ کے استقبالیہ کے شرکاء کو لاپتہ کیا گیا تاکہ عوامی شرکت کو کمزور کیاجاسکے لیکن عوامی طاقت کے آگے ریاست ڈھیر ہوگئی اور بعد ازان گرفتار نوجوانوں کو عوامی دباؤ کے پیش نظر رہا کیا گیا۔
پھر اسلام آباد میں بھی بلوچ مظاہرین کو ریاستی فورسز نے 20اور21دسمبر کی یخ بستہ سردی میں واٹر کینن اور ٹھنڈے پانی سے منتشر کرنے کی کوشش کی، آنسو گیس کے شیل پھینکے ان پر، لاٹھیاں برسائی گئی، ڈیڈھ سو سے زائد مظاہرین کولاپتہ کیاگیا، خواتین کو ٹارچر سیلوں میں بند کیا گیا ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سیما بلوچ اور سمی دین سمیت سینکڑوں خواتین کو گرفتار کیا گیا ان کے کپڑے پھاڑ دیئے گئے، بال نوچے گئے، روڈوں پر انہیں گھسیٹا گیا۔
اور مردہ ضمیر سردار و نواب جو اسلام آباد کے پر تعیش ہوٹلوں میں عیاشیوں میں مصروف اپنے ہی بلوچ خواتین پر برستی لاٹھیوں اور تشدد سے بے خبر خواب خرگوش کے مزہ لیتے رہے۔یہی نواب وسردار بلوچ عوام کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھاکر بلوچستان میں ووٹ کی خاطر بلوچ عوام سے دھوکہ دہی کرتے ہوئے کہتے ہیں، کہ ہم لاپتہ افراد کو بازیاب کروائینگے۔ لیکن بالاچ کی شہادت کے بعد شدت پکڑنے والی عوامی احتجاج نے ان دلال سرداروں کو سربازار ننگا کردیاہے ان کا سرداری کردار بے نقاب ہوکر عوام کے سامنے آچکاہے۔
جمہورریت اور انسانیت کی بات کرنے والی ریاست کا بھی پردہ فاش ہوگیا پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ ایک ڈھونگ اور دہشت گرد ریاست ہے۔اب بلوچ عوام ایک فیصلہ کریں۔ اور مستقل مزاجی کے ساتھ اس پر قائم رہے کہ ان سردار و نواب اور میر و معتبروں سے سوشل بائیکاٹ کیاجائے۔ان بے ضمیروں کیلے اب بلوچ سماج میں گنجائش ختم ہوچکی ہے عوام انہیں مقدس اور احترام کا مستحق نہ سمجھیں۔انہیں بنگلہ دیش کے غداروں کی طرح عبرت کا نشانہ بنایا جائے عوام انہیں ووٹ نہ دیں۔جب یہ ووٹ مانگنے آئے تو ان کے لیے تمام دروازے بند کئے جائیں۔
بلوچ عوام اپنی تما م طاقت اپنی آزادی کی جدوجہد کو دیں تاکہ دنیا کے نقشے پر بلوچستان ایک آزاد و فلاحی ریاست کے طور ظہور میں آجائے اور ان سرداروں کا ہمیشہ کے لئے استحصالی کردار ختم ہو۔یہ نواب سردار بلوچ کے نمائندے نہیں بلوچ کے بھیس میں ریاست کے ایجنٹ ہیں۔بلوچ وطن کے حقیقی وارث و نواب ہمارے شہداء ہیں نواب مری، شہید اکبر خان بگٹی، شہید بالاچ مری شہید غلام محمد بلوچ، شہید حمید، شہید فدا بلوچ، شہید کریم، شہید حکیم و شہید سہراب، شہید رسول بخش اور شہید ڈاکٹر مناں بلوچ اور ہزاروں لاپتہ بلوچ اسیران ہیں۔
شہداء کے راستہ پر چل کر ہم فارمی سرداروں سے جان خلاصی کرسکتے ہیں، شہداء کے راستہ پر چل کر ہم بلوچ وطن کے مالک بن سکتے ہیں، آزادی اور سکھ کا سانس ہمیں نصیب ہوگا، جہاں ہماری ننگ و ناموس اور ساحل وسائل محفوظ ہوں گے۔بلوچستان ایک دن آزادی کی منزل سے ضرور ہمکنار ہوگا ضرور۔
ٓآزاد بلوچستان زندگ باد
٭٭٭