ایران اور امریکہ کے درمیان محاذ ا?رائی کے بعد یہ دیکھنا ہوگا کہ دنیا کی سیاست کس طرف کروٹ لے رہی ہے بدلتی ہوئی سیاسی، معاشی،اقتصادی اورعسکری تبدیلی پر نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے،کیونکہ مفادات کی دنیا میں طاقت حاصل کرنا بھی اہمیت کا حامل ہے اْسے محفوظ رکھنا کسی جنگ سے کم نہیں ہوگا، دنیا کے کسی کونے میں جب تبدیلی رونما ہوتی ہے اس سے نئی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے طاقت حاصل کرنا اور اپنی طاقت کو محفوظ رکھنے کیلئے دنیا میں کہیں جنگیں لڑی جاچکی ہیں آج بھی یہی روایت زندہ ہے جس خطے میں جنگ چڑ جاتی ہے تو خطے میں بسنے والے قوم اْسکی شر وشّر سے بچ نہیں پائے گے۔
یہاں تک ہم کو سمجھنا چاہئے جنگ کس لئے اور کیوں کی جاتی ہے اسکی دور رس اثرات کیا ہیں اور کتنے ہو تے ہیں کس طرح لوگ جنگ سے متاثر ہو جاتے ہیں تاریخ زندہ رہتی تاریخ سے سبق لینا زندہ قومو ں کی نشانی ہو تی ہے.
دنیا میں جتنی طاقتیں ہیں اور جو نئی طاقتیں دنیا میں نئے نئے ابھر رہے ہیں وہ طا قت حاصل کرنے کیلئے ساتھ ہی اپنی طاقت کو محفوظ رکھنے کیلئے خوفناک حد تک جنگ لڑرہی ہیں چاہئے جنگ ٹیکنالوجی کی مدد سے ہوں،معاشی طور پر یا براہ راست جنگ کی صورت میں اس لئے لڑی جاتی ہے تاکہ اپنی مفادات کو تحفظ دے سکیں۔ عالمی طاقتیں بھی اپنی مفادات کو تحفظ دینے اور اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کیلئے جنگوں کی شروعات کرتے ہیں یہی فلسفے ہمیں سمجھ آتا ہے خود کواور اپنی مستقبل کو محفوظ رکھنے کیلئے جنگ کر نے لازمی ہوتا ہے.
اس جنگی صورتحال سے ہمیں یہ نظر آرہا ہے کہ دنیا کی سیاست میں نئی تبدیلی رونما ہورہی ہے،کہیں اسے سیاسی ماہریں تیسری جنگ عظیم کا نام دے رہے ہیں ،اس آگ میں کون جل رہا ہے،کون محفوظ ہے،کو ن اپنے آپ کو محفوط کرنے کی کو شش میں ہے؟
ایسی صورتحال میں دنیا کی سیاست کے پیچ و تاب کو سمجھنا ضروری ہے،اس وقت جو صورتحال ایران اور امریکہ کے درمیان رونما ہوئی ہیں تو دنیا کی سیاست میں بہت بڑی ہلچل نظر ا?تی ہے۔۲۰۲۰کی شروعات سے ایران اور امریکہ کے درمیان جو سرد جنگ ۱۹۵۰ سے شروع تھا یہ سرد جنگ اب تبدیل ہوکر جنگ کی نئی شکل میں نظر ا?رہی ہے امریکہ نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو بغداد میں حملے سے قتل کی تو دنیا کی سیاست میں نئی گومگو سے دوچار ہوئی ہے.
اس خطے کے بارے ذکر کریں تو افغانستان میں نہ روکنے والی جنگ موجود ہے،بلوچستان میں انسانی بقا کی خاطر اورانسانی ا?زادی کے جنگ ہو رہی ہے ساتھ ہی امریکہ اور ایران کے درمیان گشیدگی خطے میں اس نئی جنگ کی مدمل کیا ہوسکتی ہے؟
جنرل سلیمانی کی قتل کے فوری بعد ایران نے بھی امریکہ کی فوجی اڈوں پر عراق میں حملے کرتے ہیں، قاسم سلیمانی کی قتل تین جنوری میں ہوئے لیکن ایران کے سربراہ اعلی خامنہ ای پہلی دفعہ ایرانی قوم سے ۸ جنوری کو خطاب کیا اْس وقت ایران نے جوابی کاروائی سے امریکی فوجی بیس پر حملہ کرتی اِس آپریشن کو نام ایران نے آپر یشن سلیمانی دیا گیا۔امریکہ کو چیلنج کیا اور اپنی قوم کی حوصلہ افزائی بھی کی اور حملے سے پہلیامریکہ سیکورٹی الراٹ پر تھے کہ ایران کسی بھی وقت جوابی حملے کرسکتا ہے۔ حتاکہ امریکی صدر نے اپنی ایک خطاب کو بھی ملتوی کی تھی، اس بات کو ذہن نیشن کرنی چاہئے کہ ایران اور امریکہ کی تعلقات آج سے نہیں بلکہ ۱۹۷۹کے ایرانی انقلاب کے بعد بہت خراب رہے ہیں جس کے بارے میں ہر زی شعور جانتا ہو گا۔
آبنائے ہرمز جو ایک اہم آبی گذرگاہ ہے، ایک چھوٹی سی رقبہ کیباوجود اہمیت کے حامل ہے۔ انقلاب ایران کے بعد اس گذرگاہ میں کہی جنگیں رہی ہیں، تیل بردار آبی جہازوں پر حملے کیا گیا تھا۔ کہتے ہیں وہ تضاد آج بھی موجود ہے ایران اور امریکہ کے درمیان گشیدگی اپنی جگہ برقرار رہا ہے۔ جو اس وقت انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کر چکے ہیں.
اس جنگ میں جو صورتحال سامنے آرہی ہے امریکہ کیا سوچ رہا ہے؟ یہ بہت اہم سوال نہیں کیونکہ کہتے ہیں کہ پینٹاگون اپنی جنگی پالیسی پہلے سے مرتب کرتی ہے۔کہیں میں پڑھ رہا تھا کہ پینٹاگون اپنی پچیس سال کی پالیسی پہلے سے مرتب کرتی ہے یہ نہیں کہ یہ حملے کوئی حادثہ کے طور پر سامنے آئی ہے، بلکہ پری پلان حملہ ہے اس کی اثرات سے اچھی طرح امریکی ریاست جانتی تھی۔
امریکی حملے سے خطے کی سیاست میں تبدیلی نظر آر ہی ہے یہ کس طرح کی تبدیلی ہو گی کہنا قبل از وقت ہوگا، لیکن اس لئے ہمیں جانکاری رکھنا چاہئے، سعودی اور ایران کے درمیان تضاد شعیہ اور سنی کے نام سے موجود ہے۔ امریکہ جو اس وقت عراق، افغانشان اور سعودی عرب میں موجود ہے، ایران اور امریکی کے جنگ میں پاکستان کے وزیر اعظم کہہ رہا تھا کہ ہم اپنی سر زمین کوکسی اور کی جنگ کیلئے استعمال کرنے نہیں دیتے ہیں، مگر سعودی عرب کے کہنے پر کولموپور کانفرنس میں شرکت نہیں کی تو امریکہ کے سامنے اس کی حیثیت کیا ہے؟
پاکستان کے بارے میں پہلے سے ہر کوئی واقف ہے پاکستانی دانشور خود کپٹیل ٹاک پروگرام میں حتاکہ سابقہ وزیر خارجہ خورشید قصوری اور باقی پینل کے لوگ کہتے ہیں یہ ملک آزاد نہیں یہاں انکی چلتی ہے جو اس ملک کو چلا رہے ہیں میں سمجھتا ہوں پاکستان میں امریکی سکہ چلتا ہے،جب چاہئے پاکستان میں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
سمجھنا ہوگا کہ قاسم سلیمانی پر حملے کی چند روز پہلے امریکہ نے پھر سے پاکستان کی فوجی امداد بحال کیا تھا اور انکی فوجوں کو تربیت دینے کی اعلان کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے اپنی پالیسی پہلے سے ترتیب دی ہے۔ اس جنگ میں یہ نظر ا?رہا ہے کہ براہ راست سعودی عرب اور پاکستان نظر آرہے ہیں۔
سعودی عرب مدرسوں کی ذریعے سے پہلے ہی پاکستان کے ہر کونے میں موجود ہے، ان ہی مدرسوں سے داعش اور القاعدہ کی بھرتیاں ہوتی ہیں۔ مدرسوں کی جال بلوچستان میں نظر آتے ہیں اگر ہم وسیع بنیادوں میں دیکھیں تو اس وقت بلوچ تحریک کو ختم کرنے کی عالمی سازشیں نظر آرہی ہیں، بلوچ سیاسی کارکناں کوسمجھنا ہوگا، کیونکہ جس طرح سیاست کی کھیل نظر آرہی ہے اسطرح بلوچ تحریک آزادی کو انتہائی سخت صورتحال کا مزید سامنا کرنا ہوگا۔
کیا ہم اس بدلتی سیاسی صورتحال کو سیاسی بنیادوں پر ہم تجزیہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، اور اس کے جو اثرات مرتب ہو رہے ہیں اسے روکنے میں کتنے کامیاب ہو سکتے ہیں؟
ہم روز اول سے یہی کہتے آرہے ہیں کہ وسیع بنیادوں پر جامع پالیسیوں کی مرتب کرنے ضروری ہے، مگر کچھ دوست کہتے ییں کہ عالمی تبدیلی اور ریجنل تبدیلی ہو رہے ہیں۔ ہم یہی کہتے تھے اس تبدیلی میں ہماری رول کیا ہے، اورہم کیا کر رہے ہیں؟
بلوچ سیاست کو بہت سے اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے،اس وقت بلوچ کیلئے چاروں طرف دشمن ہی دشمن نظر آرہے ہیں۔ چین جیسے سامراج بھی موجود ہے اور ساتھ ہی سعودی عرب جسے بنیاد پرست اس خطے میں موجود ہے، ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کا طریقہ صرف ایک ہے اگر ہمیں بلوچ تحریک عزیز ہے تو اپنی گروہی مفادات کو یک طرف رکھنا ہوگا اور ایک جامعہ پالیسی کے تحت یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا،کیونکہ انگریز کی دی ہوئی پالیسی ا?ج بھی بلوچوں پر استعمال ہو رہا ہے” تقسیم کرو اور حکمرانی کرو” اپنی جگہ موجود ہے۔ حقیقت ہے کہ جنگ کو جنگ ختم کرتی ہے، لیکن دنیا میں جتنی جدت آئی ہے اس جدت میں بلوچ کو اپنی قومی بقا کی تحفط کیلئے اپنی صلاحیتوں بْرواکار لائیں کہیں بلوچ کی کوئی سودا بازی نہ کریں۔
”بقول ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کے "جنگی معافی خور ہر جگہ مو جود ہوتے ہیں“ بلوچ کوسمجھنا چاہئے خطے کے بدلتی سیاسی صورتحال کو انقلابی تعلیم کی بنیاد پر دیکھنا انتہائی لازمی ہے جذبات کسی چیز کوحاصل نہیں کرتی ہے.