بلوچستان کی سرزمین نے ہمیشہ ثقافتی رنگوں، خوبصورت گائیکی، اور منفرد فنون کے علمبردار پیدا کیے ہیں۔ انہی میں سے ایک درخشاں ستارہ سیمُک بلوچ بھی ہیں، جنہوں نے اپنی سریلی آواز سے محض بارہ برس کی عمر میں سماعتوں کو مسحور کیا اور براہوئی فوک گائیکی کو ایک نئی جہت عطا کی۔
سیمُک کی آواز میں وہ جادو اور مٹھاس ہے جو نہ صرف دلوں کو چھو لیتی ہے بلکہ بلوچستان کی ثقافت اور مٹی کی خوشبو کو بھی سماعتوں میں بکھیر دیتی ہے۔
سیمُک نے اپنی گائیکی سے براہوئی فوک شاعری کے کلاسک رنگوں کو یوں اجاگر کیا کہ سننے والے اس میں محو ہو جاتے ہیں۔ خصوصاً براہوئی زبان کے نامور فوک شاعر مراد پارکوئی کی گائیکی کو اپنے منفرد اور دلکش انداز میں گاکر اس کو ایک نئی اور منفرد زندگی دی ۔ ان کی سریلی آواز میں ایسا سوز اور تاثیر ہے جو بلوچستان کی پہاڑیوں، میدانوں، چشموں، اور جھرنوں کی گونج کا احساس دلاتی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ بلوچستان کی سرزمین سے ایسی منفرد آواز ابھری ہو۔ اس سے قبل اختر چنال، مراد پارکوئی، بشیر احمد گدانی، حضور بخش مستانہ، حضور بخش خضداری، جنگی خان، عبدالخالق فراد، گودی نوشین قمبرانی ، محمد عالم مسرور استاد قادر آزاد استاد امام بخش شاہین استاد میر احمد اور پروفیسر عظیم جان جیسے عظیم گلوکاروں نے اپنی آواز کے ذریعے بلوچ کلچر اور براہوئی زبان کی کلاسک شاعری کو نہ صرف قومی بلکہ عالمی سطح پر متعارف کرایا۔
سیمُک بلوچ ان عظیم فنکاروں کے تسلسل کی ایک کڑی ہیں، مگر ان کی آواز میں ایک ایسی نرمی، تازگی، اور جاذبیت ہے جو انہیں منفرد بناتی ہے۔
اسی دھرتی کے ہنر مند فرزندوں کے بارے میں عطا شاد کہتے ہیں:
"کوہساروں کی عطا رسم نہیں خاموشی
رات سو جائے تو بہتا ہوا چشمہ بولے”
اس مٹی کے سپوت ہمیشہ اپنے منفرد انداز میں فنون لطیفہ کی ترجمانی کرتے آئے ہیں، اور سیمُک بھی اسی روایت کا ایک خوبصورت تسلسل ہیں۔
سیمُک اپنی عمر کے اعتبار سے نہایت کمسن ہیں، لیکن ان کا انداز، گائیکی میں مہارت، اور فن کی گہرائی بتاتی ہے کہ ان کے اندر اپنے دھرتی کی محبت اور اس کی ثقافت کو آگے لے جانے کا عزم موجود ہے۔ سیمُک نہ صرف گلوکارہ ہیں بلکہ اپنی ثقافت کی ایک حقیقی سفیر ہیں، جو براہوئی فوک شاعری اور موسیقی کو ایک نئے طرز میں پیش کر رہی ہیں۔
ان کی گائیکی سامعین کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑتی ہے اور ان کے گیتوں میں بلوچستان کی مٹی کی خوشبو صاف محسوس ہوتی ہے۔ جب سیمُک گاتی ہیں، تو یوں لگتا ہے کہ جیسے بلوچستان خود اپنی کہانی سنا رہا ہو۔ ان کے گیتوں کی مدھر تانیں بلوچستان کی ثقافت، تاریخ، اور روایتوں کو ایسے پیش کرتی ہیں جیسے یہ سرزمین خود جھوم رہی ہو۔
سیمُک بلوچ کے لیے بے شمار دعائیں اور نیک تمنائیں ہیں۔ امید ہے کہ وہ اپنی گائیکی کے ذریعے براہوئی فوک شاعری اور موسیقی کو نہ صرف بلوچستان بلکہ عالمی سطح پر ایک نئی پہچان دیں گی۔ یہ باصلاحیت بیٹی ہماری ثقافت کی روحانی اور تخلیقی ترجمان ہے، جو آنے والے وقتوں میں اپنی محنت، لگن، اور فن کے ذریعے نہایت بلند مقام حاصل کرے گی۔
بلوچستان کی اس باصلاحیت بیٹی کو سلام اور دعا کہ وہ ہمیشہ کامیابی کی بلندیوں کو چھوتی رہے۔
٭٭٭