پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نےلاہور میں بزنس سہولت سینٹر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں سے کوئی سوال کریں تو وہ گولی ماردیتے ہیں،جو سمجھتے ہیں قتل جائز ہے تو وہ قانون بنالیں، جس کو دیکھو وہ ہمدرد بنا پھرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ احتجاج کی آڑ میں دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے والوں کو قبول نہیں کریں گے، 9مئی کو احتجاج کرنے والوں کابھی یہی ایشو تھا وہ قانون کے دائرے سے باہرآگئے تھے، مجھے خوشی ہوئی کہ پنجاب کے لوگوں کو بلوچستان کے لوگوں سے ہمدردی ہے، یہ علیحدگی پسند ہزاروں لوگوں کو مار چکے ہیں، یہ لوگ دہشت گردی کو جہدکار کہتے ہیں، جن لوگوں نے حمایت کرنی ہے وہ ان مسلح تنظیموں کا کیمپ جوائن کریں۔
نہ یہ 71 ہے نہ ہی بنگلہ دیش بنے گا، یہ لوگ بھارت سے پیسہ لے کر80،90 قتل کرتے ہیں، 98 فیصد بلوچ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں، ایک ماحول بنادیا ہے کہ وزیر اعظم بلوچستان کے لوگوں کی بات نہیں سن رہے ہیں، ڈھٹائی کے ساتھ گفتگوکرنے سے مسائل کا حل نہیں نکلے گا، بلوچستان میں 90 ہزار افراد قتل ہوگئے، 9ملزمان کو سزا نہیں ہوئی، مسلح تنظیمیں ملک توڑنا چاہتی ہیں، یہ ریاست اور مسلح تنظیموں کے درمیان جھگڑا ہے، یہ تنظیمیں بھارت کی فنڈنگ سے چل رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب منصب سے ہٹوں گا تو پھرکھل کربات کروں گا، مجھےطعنے نہ دیں کہ بلوچ یاد رکھیں گے، میرا بلوچوں سے 3 نسلوں کا تعلق ہے، لاپتہ افراد کے لواحقین پہلے بھی احتجاج کرتے رہے ہیں آئندہ بھی کریں گے، بلوچستان میں علیحدگی پسندوں سے کوئی سوال کریں تو وہ گولی ماردیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ احتجاج کرنے والوں کے ساتھ پولیس کی جھڑپ کو غزہ سے جوڑاجارہا ہے، آزادی رائے سب کا حق ہے سوشل میڈیا پر پابندی نہیں ہونی چاہیے، میں نگران وزیراعظم ہوں میں تو جانے والا ہوں، میرامینڈیٹ نہیں کہ سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوں کو جواب دوں، وزیراعظم بلوچستان سے ہے تو مجھ پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔