کسی بھی شے اور ارتقائی عمل کے بارے میں فلسفہ کی ایک قسم یا تو کسی شخص کے خون میں پیدائشی موجود ہوسکتی ہے یا پھر آہستہ آہستہ ایک تخلیقی معاشرہ، پختہ سیاسی وابستگی اور اس کے آس پاس میں میسر سازگار تعلیمی ماحول سے داخل ہوسکتی ہے جہاں تربیتی اور تعلیمی سرگرمیاں بہت سے اہم معاشرتی اثرات کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔
ایک طرف ایک نقطہِ نظر سے چیزوں کو مثبت دیکھنا اور دوسری رخ میں انہیں منفی یا الگ تصور کرنے کا عمل دراصل وہ نظریہ کہا جاتا ہے جو ایک عمدہ فن سمجھا جاتا ہے جس سے کوئی بھی شخص اپنے ارد گرد کے پریشان کن اور بدلتی حالات سے نمٹنے کے مقابلے میں ہمہ وقت چوکنا ہوتا ہے۔ بحیثیت سیاسی کارکن ہونے کے ناطے یہ تمام پہلو بلاشبہ طویل زندگی گزارنے کیلئے بالکل بھی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ زندہ ہی رہنا کسی قوم پرست کو اس کے سیاسی گراونڈ کے کھٹن حالت کو سمجھنے کیلئے اہم پہلو ہی دکھائی دیتا ہے۔
انسانی وسائل(ہیومن ریسورسز) کا وجود رکھنا کسی بھی طرح کی ارتقائی تحریک کے لئے بنیادی شرطیں ہیں کیونکہ پہلے سے موجود نظام میں کوئی تبدیلی یا تبدیلی لانے کی ضرورت ہوتی ہے تو دوسری جانب مخالفین آسانی سے بیٹھے تماشی نہیں بنتے بلکہ وہ ہر قسم کی مزاحمت کا سبب تلاش کرتے ہوئے لڑنے والے کو سخت سے سخت ترین الجھنیں میں نمٹنے پر مجبور کرتے ہیں۔
لیکن ان تمام صورتحال میں جو بھی فرد اضطرابی حالت میں مستقل لگن، عزائم، خدمات اور خوش اسلوبی کے معیار کے ساتھ پیدا ہوا ہو، وہ صرف اس شخص کی روشن خیال افکار اور نظریاتی تعلیمات کی وجہ سے ہوسکتا ہے جو یقینی طور پر اجتماعی حصول کے مقصد کی تشکیل میں معاون ثابت ہونے کا عہد کر بیٹھتا ہے۔
حقیقتاً وہ شخص ایک مستقل رہنما یا واقف شدہ فرد ہوسکتا ہے، جس میں ایسی ساری خصوصیات موجود ہیں۔
تاہم، اگر آج کوئی مجھ سے پوچھتا ہے کہ، "مجھے کیا لگتا ہے، بلوچ تحریک کو کس قسم کے افراد یعنی سیاسی لیڈران کی ضرورت ہے؟
سچ میں، اس پوچھے گئے سوال کا میرا جواب یہ ہوگا، "وہ شخص جو تمام سیاسی، معاشرتی اور معاشی خصوصیات کے مالک ہو، جو سہی وقت پر سہی فیصلہ لینے کا ہنر جانتا ہو۔ اس میں کوئی شک ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ مِشہر ڈاکٹر منان بلوچ ہی کی شکل میں ہوگا، جس کی شخصیت مکمل طور پر ایک مضبوط سیاسی ڈھال میں ابھرا ہے۔ استقامت اور اعتدال پسندانہ فطرت کے مالک اور انتہائی موثر سرپرستی کے صلاحیتوں سے سرشار، نا تھکنے اور نا روکنے والا عظیم نام جو تاریخ میں آمر ہوگیا۔
ڈاکٹر نہ صرف مثبت طور پر ایک سیاسی کارکن تھے بلکہ ایک بہت ہی عملی سیکولر فرد بھی تھے، وہ بذاتِ خود اپنی ہی رائے کے مطابق پوری بلوچستان کو تعلیم یافتہ اور روشن خیال دیکھنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ایک انتہائی مددگار آدمی تھے، بہت ہی کم وقت میں ڈاکٹر کا کسی سے بھی دوستی ہوسکتا تھا۔ کیونکہ وہ Ego نام کا کوئی چیز ہی نہیں رکھتے تھے یہی وجہ ہے وہ جس سے ملتے تھے اس کا دل اور دماغ جیت لیتے۔
ایک بات یاد دلانے کے لئے کرنا چاہتا ہوں کہ، ڈاکٹر نے کبھی بھی کسی سے ملاقات نہ کرنے کا بہانہ نہیں کیا، انکار، ناپسند طبیعت کا نہ لگنا کسی کو برداشت نہ کرتے ہوئے ان سے بات کرنے سے پرہیز کرنا جیسے کچھ بھی ڈاکٹر منان بلوچ کی فطرت میں موجود نہیں تھا۔ خواہ وہ شخص اپنی ہی اْسکے پارٹی سے تھا یا کسی اور جماعت سے وابستگی رکھتا تھا لیکن اس نے ہمیشہ لوگوں کے ساتھ بڑے جوش و خروش سے ملاقات کا احساس ظاہر کیا، اس میں سب سے پیدوارانہ بات یہ تھی کہ ڈاکٹر بی این ایم کے سیاسی اور معاشی منشور اور ایجنڈوں کے بارے میں عوامی آگاہی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو خارجہ پالیسیوں کے بارے میں اگاہی مہم کے بارے میں علم دینے کیلئے پیش پیش تھے تاکہ پارٹی کے موقف کو ریاست کے استحصالی منصوبوں کے بارے میں بلوچ کی زمینی اور وسائل ومسائل پر گہری رسائی اور آشنائی مل سکیں۔
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے، بلوچوں میں ایک عام خیال پایا جات ہے، جو اب تقریباً نفسیات بن چکا ہے کہ ہم اکثر کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کی تعریف کرنا شروع کردیتے ہیں اور قریبی دوست ہونے کا ڈنڈورا کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں، یہ ایک نفسیاتی نقطہء نظر ہے جس نے ہمیں مردہ ضمیر کی حیثیت سے نوازا ہے۔ بحرحال ہر قسم کی خدشات رکھتے وقت ہم اپنی شعوری زون سے نکلتے تو ہیں مگر قابل احترام افراد کو عزت کی نگاہوں سے دیکھنے کے لئے کسی بھی شخصیت کی بالاد کو ناپنے کے لیے اس کا پائیدار اور مثبت طرزِ عمل کا احساس درکار ہوتا ہے، جو دن اور رات قربان کرکے ترقی اور بہتری کے لئے کوشش کر رہے ہوں۔
ہم اکثر کہتے ہیں، "وہ شخص ایک بہت بڑا فرد تھا لیکن اس کے لئے سب سے پہلے مرنے کی ضرورت ہوتی ہے”۔ سیکولر اور ایک منصفانہ نظام کے مانگ کرنے والوں کو منصفانہ انداز میں ہر پہلو جانچنے کا فن بھی آنا چاہئے۔
کسی بھی فرد کو عزت اور مقام دینے کیلئے صرف عوامی رائے کا پابند نہیں ہونا چاہئے تاہم اس کا فیصلہ کسی کی خوبیوں اور وعدوں کے عمل سے ہی کیا جانا چاہئے۔
ڈاکٹر منان بلوچ علمی اور فکری شعبے میں اس حد تک مہارتیں رکھتے تھے کہ وہ ہر طرح کے سماجی اور سیاسی بیانیہ اور منظرناموں سے واقف تھے جس کی وجہ سے وہ بلوچ طلباء، ملازمین، کسانوں، اساتذہ اور زندگی کے دیگر شعبوں سے وابستہ لوگوں کو شعوری طور پر عملی زندگی میں منظم اور دردمندانہ ہدایت دیتے پایا گیا۔
ڈاکٹر، ایک انتہائی قابل انسان کے ساتھ ساتھ ایک حساس رہنما کے عہدے پر فائز تھا، حالانکہ اْسے مہینہ بر کے لئے اپنے گھر جانے کے لئے زیادہ وقت نہیں ملتا تھا، مگر جب کبھی موقع ملنے پر وہ امید کرتے کہ وہ سیاسی سرگرمیاں سرانجام دیتے ہوئے اب کچھ لمحات گھر میں گزار سکتا ہے تو
وہ آبائی علاقہ پہنچتے ہی خاندان کے سبھی افراد کو اپنے گھر بلا لیتے اور سب سے تفصیلاً ملنے کی کوشش کرتے اور جو لوگ اس کے زیادہ ہی قریب تھے ان سے لیکر باقی تمام افراد سے یکساں سلوک اور برتاؤ کرتے تھے یہاں تک کہ اس نے آس پاس بیٹھے تمام لوگوں کی خدمت کرنا اپنے لئے عموماً فحر سمجھا تھا، یہی عمل دوپہر کے کھانے سے لیکر رات کے کھانے تک عیاں تھا۔
جیسے ہی وہ گھر پہنچا تھا وہاں پھر ایک ہنسی کا ماحول بھڑک اٹھتی تھی، جو اکثر پورے گھر کو خوشگوار مقام بنا دیتا تھا، اور نہ صرف ڈاکٹر نے خون ہی کے رشتوں کو ترجیح دیا بلکہ اس نے سب کو محبت اور پیار سے دیکھا اور جب بھی کسی سے ڈاکٹر ملاقات کرتے تو اس کے دل میں مستقل جگہ بنا لیتے، ایسی شفقت کی وجہ سے ہر کوئی اْسے بابا (والد) کہہ کر پکارتے تھے۔
اگر ایسے میں بدقسمتی تصور کروں تو شاید غلط نہیں ہونگا کہ میں سیاسی لحاظ سے ڈاکٹر کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکا لیکن ان کے ساتھ کچھ ایسی سیاسی یادیں وابستہ ہیں جو عام طور پر مجھ سمیت کسی کو بھی ان کو ایک قومی ورثہ سمجھنے میں مدد کرتے ہیں جس سے بلوچ سیاست میں سیاسی رجحانات اور تخلیقی تعلیمات کو سمجھنے کی عکس سامنے عیاں ہوتی ہے،
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا، کیونکہ بہت سخت اور سخت حالت میں جب بلوچ سرزمین کے ہر حصے سے لاشیں پھینک کر ان کی تذلیل کی جارہی ہو تو وہاں کوئی اپنی زندگی سے زیادہ تنظیمی سرگرمیوں کو اہم رکھتے ہوئے سفر کے لئے روانہ ہونے کی تیاری کر رہا ہو، وہ صرف ڈاکٹر منان ہی ہوسکتا ہے اور اس کے راہ پر چلنے ہوالے بہادر بلوچ ماؤں کے بچے۔ ان کے علاوہ کون بیچارہ ایسا کچھ کرسکتا ہے، کم ازکم یہ میرے لئے بہت ہی پریشان کن معلوم ہوتا ہے۔
ڈاکٹر منان بلوچ جمہوری سیاست میں بہت زیادہ یقین رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ کسی سے بھی سخت لہجے میں بات نہیں کرتا تھا، وہ ہمیشہ بہت خوش نما چہرے سے گْل ملتے اور ہر ایک کی سیاسی رائے اور انفرادی مقام کی قدر کرتا تھا۔
اپنے ہی سیاسی دائرے میں، وہ چیئرمین غلام محمد کی شہادت سے عین قبل متعدد بار ایک ریاستی ایجنٹ کے طور پر نشان زدہ اور الزام کا لیبل ہوا تھا لیکن وہ ایک دوراندیش سوچ رکھنے والے کارکن تھے اور انہوں نے سیاسی سرگرمیاں اور بلوچستان کے کونے کونے میں سیاسی تبلیغ پہنچانے کا عہد کر رکھا تھا اور اپنے اوپر لگے الزامات سے مایوس ہونے کے بجائے، خود کو تنظیمی سرگرمیوں کے لئے وقف کیا جس کی وجہ سے وہ جنرل سکریٹری کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے.
جب صبح سویرے ان کی شہادت کی خبر سنا گیا تو، خدا وند کے دربار سے یہ دعا نکلا اللہ کریں ان کے قتل کی خبر غلط ہو، کیونکہ ڈاکٹر مجھے سیاسی طور پر ایک مضبوط آدمی نظر آتا تھا جس کا مجھ سے زیادہ بلوچ قوم کو ضرورت تھا اور چونکہ خود انکا یہ کہنا تھا کہ ابھی انھیں آزادی ملنا ہے لہذا وہ اتنے جلدی سے کیسے مر سکتے ہیں، انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ جب تک آزادی کا شمع نہیں جلتا وہ زندہ ہے۔
اس کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ مسکراتے ہوئے کہتا تھا کہ قوم کو اس کی ضرورت ہے، لہذا اس کے مرنے کے بعد، ان کے بچوں کا بھی قوم ہی دیکھ بھال کرے گی۔
لیکن پریشان ہونے کی کوئی فکر نہیں، میں آزادی کے صبحِ طلوع ہونے تک زندہ ہوں۔ اور آج جب ڈاکٹر کی یاد ہمیں اشکبار کرتا ہے تو اس سے یہی آخز کرنا آسان ہیکہ ڈاکٹر آزادی کی شمع جلتے وقت تک زندہ ہے۔
ویسے اگر دیکھا جائیں تو روایتی اور معاشرتی طور پر ڈاکٹروں کو زندہ رہنا ہوتاہے، صحتمند رہنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انہیں بیماروں کا علاج اور تدارک کرنے کا علم ہے، تاہم ڈاکٹر کے شہادت کی خبر سننے کے فورا بعد ہی کچھ تصاویر اچانک سوشل میڈیا پر لگی نظر آ گئے، ٹھیک اسی وقت وہ تمام بچے یتیم ہوئے تھے جو کہا کرتے تھے، "بابا (ڈاکٹر منان) ہمیں پہاڑوں کی طرف پکنک کیلئے لیچلو”۔۔۔۔
ورلڈ ٹائمز سمیت جریدہ اکانومسٹ، جو لاہور میں شائع ہوتا ہے اور بھی کچھ قابل رسائی غیر ملکی انگریزی رسائل اس کے پسندیدہ انتخاب میں سے تھے جنہیں وہ اکثر پڑھتے تھے۔ ڈاکٹر خارجہ سیاست اور سفارتی پالیسیوں پر جامع نظریہ رکھتے تھے، محض ایک وسیع پیمانے پر قاری ہونے کے ناطے وہ بلوچستان کے معاملے میں استحصالی کمپنیوں کے ابھرتے ہوئے جھکاؤ سے بخوبی واقفیت رکھتے تھے کیونکہ وہ زمینی طور پر تنظیمی سرگرمیوں کے باوجود تعلیمی سرگرمیوں کو پروان چڑھانے کا بھی خواہشمند تھا۔ ڈاکٹر منان بلوچ کتابیں پڑھتے تھے مگر بہت ہی باریک بینی سے، یہی وجہ تھی وہ اپنے سرکلز کے دوستوں سے سیاسی و علمی امور پر بھرپور پر گفتگو کرتے تھے۔
وہ عام طور پر اپنے بچوں کو زیادہ دن نہیں دیکھتا تھا۔ ایک بار بڑی لمحات کے بعد تنظیمی سرگرمیوں سے واپس آنے کے بعد جب ڈاکٹر گھر آیا تھا، اس نے اپنی چھوٹی بیٹی کو اپنے گود میں آنے کو کہا تو وہ رو پڑی، ڈاکٹر زور سے ہنسے اور کہنے لگا،
"دیکھیں، آزاد خیال اور آزادی پسند ہونا کا ہی فائدے ہیں، بچوں سے چھٹکارا تو ملتاہے. آج میرے بچے مجھ سے بھاگتے ہیں اور میں جسمانی طور پر جب غائب ہو جاونگا، یقیناً انہیں میرے مرنے کا شدید حد تک دھجکا نہ لگیں۔۔
ایک دھیمی ہوئی قہقہہ اس کے آس پاس بیٹھے لوگوں سے سنائی گیا لیکن اس کی اپنی ہنسی بہت دور دور تک سنائی دے رہا تھا۔۔۔۔
ڈاکٹر منان بلوچ اس سیاسی رھشوان کا لقب اپنے نام کرنے میں کامیاب رہا جو پارٹی امور، سیاسی تربیتی بحالی پروگرام اور کئی قسم کے ایجنڈے پر دن رات انتھک محنت کرتے تھے، کہیں نہیں کہیں وہ سیاسی دوستوں سے ملنے جاتے تھے، وہ بنیادی طور پر تنظیمی کی معاشی پریشانیوں سے نمٹنے کے لئے دورافتادہ جگہوں تک سفر کرتے تھے لیکن کبھی بھی تھکاوٹ اور مایوس کا نام ہی نہیں لیتے تھے اور ناہی کھبی آرام کرنے کا زرا بھی سوچتے تھے۔
چنانچہ ڈاکٹر جس طرح سیاسی سرگرمیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا وہ آج دوسرے نظریہ پسند دوستوں کے لئے بھی ایک نظریہ بن گئے ہیں۔
ایک بار جب کسی ہم فکر سیاسی دوست کے گھر ڈاکٹر ملنے گیا تھا، مہمانوں سے جیسے کہ روایتی طور پر پوچھا جاتاہے، تو میزبان پوچھنے لگا۔
"ڈاکٹر، آپ کیا کھانا پسند کریں گے”؟.
"دیکھیں، ہم ایک زبردست جابرانہ ریاستی مشنریوں کے شکنجے میں نالاں ایک محکوم قوم ہیں، ہمیں کھانا مزیدار اور مہنگے کھانے کی ضرورت نہیں ہے، لہذا یہ ضروری نہیں۔
البتہ آپ کو یہ تکلیف کرنا ہوگا، مارکیٹ میں جاکر ایک صحت مند اور پہاڑی بکری کا بندوبست کرنا تاکہ اْسے سنڈروں پر تلی بناکر بنایا جاسکیں اور آپ گھر پر یہ بھی آرڈرز دیں کہ وہاں تلی ہوئی چاول، کولڈ ڈرنک وغیرہ وغیرہ کا بھی انتظامات ہوجائیں۔ وہاں موجود ہر شخص ہنس پڑا۔ ایسی کیفیتی ہنسی نے میزبان کے گیسٹ ہاؤس کو دلکش بنا دیا۔
ڈاکٹر ہر قسم کے کھانے کو بہت پسند کرتے اور کھانے کے شوقین تھے۔ ڈاکٹر ایک ٹانگ سیتھوڑا کمزور تھا چونکہ وہ ایک کار حادثہ میں زخمی ہوا تھا مگر سخت کوشش پر یقین رکھتے ہوئے اْسے سیاسی سرگرمیوں میں یہ معذوری عرض بن کر روکنے کا پریشان کن عنصر نہیں بن سکا۔
وہ پیدل سفر بھی کیا کرتے تھے، جب اسے حالات کی خرابی کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن کبھی رْکتے ہوئے سنا نہیں تھا۔ ڈاکٹر منان کا ساتھی ساجد عمر جو ان کے ساتھ کِلی دَتو مستونگ میں شہید ہوا تھا، اْن کے ڈھلائے ہوئے بیٹے کی طرح تھا، اس نے ساجد کو اپنے بہت ہی قریب رکھا تھا اور ایک دفعہ کسی دوست نے ڈاکٹر سے دریافت کیا تھا کہ "ساجد ابھی نوجوان ہیں اور اسے تعلیم حاصل کرنے کے لئے کہیں بھیج کیوں نہیں دیتے ہو”؟.
انہوں نے کہا، "وہ جہاں بھی پڑھنا چاہیے اسے بھیج سکتا ہوں، اور کئی بار کوشش بھی کیا ہے لیکن اسے جانے کا کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے کیونکہ اس نے میرے ساتھ زندہ رہنے اور مرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے”۔
ڈاکٹر اپنے ساتھیوں سمیت جسمانی طورپر جدا ہوگئے، ان کے لہو نے پورے کَلی دَتو کو سرخ کردیا، آج بھی ان تمام ساتھیوں کے مقبروں پر پھول اور خوشبوؤں کی بْو یہی یاد دلاتا ہے کہ وہ لہو جو زمین کیلئے قربان ہوگئے آج سنگلاخ پہاڑوں کے دمن میں نظریہ کی شکل میں موجود ہے۔