بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں جبری گمشدگیوں و حراستی قتل خلاف تربت سے کوئٹہ تک لانگ مارچ شرکاء نے آج بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ایک عظیم الشان احتجاجی ریلی نکالی۔
ریلی میں ہزاروں افراد ،مرد و خواتین اور بچے شریک تھے ۔
ریلی مظاہرین نے بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے دھرنا دیا۔
بعد ازاں احتجاج اور دھرنے کے بعد لانگ مارچ کے شرکا واپس سریاب مل کے مقام پر چلے گئے۔
آج کے ریلی میں جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے علاوہ مقامی افراد جن میں خواتین شامل تھے، بڑی تعداد میں ریلی میں شریک رہیں۔
شرکاء نے جبری لاپتہ افراد کی تصویریں اور بلوچ نسل کشی کے خلاف پلے کارڈ اور بینرز اٹھا کر شہر کے مختلف سڑکوں پر مارچ کیا۔
اس موقع پر لاپتہ افراد کے لواحقین نے کہاکہ ریاست ہمارے پیاروں کو بحفاظت بازیاب کرے، اگر انہیں کسی الزام میں لاپتہ کیا ہے کہ تو اپنی عدالتوں میں پیش کرے۔
لواحقین نے کہاکہ زیر حراست افراد کا جعلی مقابلوں میں قتل پر خاموش نہیں رہینگے ، آج پورا بلوچستان سراپا احتجاج ہے کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے لیکن ریاست اور اسکے نمائندے سنجیدہ نہیں بلکہ جبری گمشدگیوں میں تیزی لائی گئی ہے ۔
انہوں نے کہاکہ صرف چار اہلکاروں کو معطل کرنا ہمارا مطالبہ نہیں ، تربت میں پیش کئے گئے مطالبات پر عمل کیا جائے ، مطالبات کی منظوری تک دھرنا جاری رہے گا۔
واضع رہے کہ بلوچ لاپتہ افرادلواحقین کو تربت تا کوئتہ لانگ مارچ کو روکنے کیلئے عسکری اسٹیبلشمنٹ اور بلوچستان حکومت نے اپنی پوری طاقت کا استعمال کیا تھا لیکن ناکام ہوگئی اور مارچ کوئٹہ پہنچ گئی ۔اب بلوچستان حکومت کے ترجمان جان اچکزئی جو کل کہہ رہا تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی ایک تخریب کار( سی ٹی کے ہاتھوں جعلی مقابلے میں قتل ہونے والا بالاچ بلوچ ) کی حمایت میں لانگ مارچ کر رہی ہے ۔اب عوامی طاقت دیکھ کر اپنا بیان بدل کر کہہ رہا ہے کہ کوئٹہ میں سیکورٹی تھریٹ ہے، شرکاء لانگ مارچ جاری رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اعتراض نہیں۔