ہندوستان کا افغان امن مزاکرات میں شامل ہونا انتہائی ضروری ہے، ڈاکٹرعبداللہ ہیواد

ایڈمن
ایڈمن
12 Min Read

کوئٹہ(سنگر ویب ڈسک)

افغانستان کے گورنرز اسمبلی کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ ہیوادکا کہنا ہے کہ افغان میں امن کا تعلق ہندوستان میں امن سے ہے۔

نئی دہلی: سنڈے گارڈین نے افغانستان کے سابقہ اور موجودہ گورنروں کی ایک ممتاز تنظیم، جو افغانستان کے گورنر اسمبلی (اے ایس اے) کے صدر، ڈاکٹر عبد اللہ ہیوادسے گفتگو کی۔ ہیواد، جو افغانستان میں صوبہ غور کے گورنر تھے،نے اس بارے میں بات کی کہ بھارت کو افغانستان کے امن عمل میں شامل ہونے کی ضرورت کیوں ہے اور کیوں طالبان پاکستان کی بولی بولتے ہیں۔

سنڈے گارڈین: آپ افغانستان کی موجودہ صورتحال کو کس طرح بیان کریں گے؟

ڈاکٹر عبداللہ ہیواد: افغانستان فی الحال ایک مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ موجودہ سیاسی اور سلامتی کی صورتحال تشویشناک ہے کیوں کہ انتخابات کے نتائج ابھی تک معلوم نہیں ہیں۔ ہمیں امید تھی کہ انتخابات کے انعقاد کے بعد حالات بہتر ہوجائیں گے، لیکن ہمارے داخلی اور سلامتی کے معاملات میں پاکستان کی مداخلت کی وجہ سے، اس سے عام لوگوں میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔

سنڈے گارڈین: اس بارے میں بہت ساری قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ کیوں آخری وقت پر امریکہ کے طالبان سے مذاکرات ناکام ہوگئے۔ اس معاملے میں آپ کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

ڈاکٹر عبداللہ ہیواد: ہم امید کرتے ہیں کہ اس مذاکرات سے افغان پریشانیوں کا خاتمہ ہوگا کیونکہ ہم 40 سال کی جنگ کے بعد امن مذاکرات کے نتائج حاصل کرنے کے قریب تھے۔ تاہم، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک ہی ٹویٹ سے، سب کچھ ختم ہو گیا۔ امن عمل امریکی حکومت کی چار نکاتی حکمت عملی پر مبنی تھا1۔امریکی حکومت نے طالبان سے براہ راست بات چیت کی2۔امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا3۔افغان حکومت، سیاستدانوں اور طالبان کے مابین انٹرا افغان ڈائیلاگ4۔جنگ بندی کا وعدہ جس کے تحت طالبان کو افغان حکومت پر حملے روکنے پڑیں گے جب تک امن منصوبے کا مسودہ تیار نہیں ہوتا اس وقت تک افغان حکومت کو بھی طالبان پر حملے روکنے پڑیں گے۔

جہاں تک ہم جانتے ہیں، سفیر زلمے خلیل زاد (امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان مفاہمت) نے ”امارات حکومت آف طالبان”کو قبول کرلیا تھا (طالبان چاہتے تھے کہ افغانستان کو ”امارات افغانستان”تسلیم کیا جائے کیونکہ افغانستان میں جب 2000 میں اقتدار میں تھا) اور اسلامی جمہوریہ افغانستان نہیں جیسا کہ اس وقت کہا جاتا ہے۔ تاہم، یہ افغان حکومت کے لئے قابل قبول نہیں تھا۔

خلیل زاد نے انتخابات پر امن کو ترجیح دی، صدر غنی جس کے خلاف تھے۔ طالبان کی طرف سے دباؤ میں اضافے (جیسے امریکی اور افغان سکیورٹی فورسز پر حملوں) نے امن مذاکرات میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کیا اور اسی وجہ سے طالبان نے امریکہ کو اپنے مطالبات میں سے زیادہ قبول کرنے پر مجبور کیا جس نے امریکی حکومت کو امن مذاکرات کے خاتمے کی طرف دھکیل دیا تاکہ طالبان کو کچھ احساس ہو۔

سنڈے گارڈین: طالبان، بار بار اور مختلف فورمز پر، کہتے ہیں کہ وہ پاکستان سے کوئی ہدایات نہیں لیتے ہیں۔ آپ اس کا کیا جواب دیں گے؟

ڈاکٹر عبداللہ ہیواد: پاکستان نے طالبان بنائے ہیں اور جب سے وہ تشکیل پائے ہیں تب سے ہی طالبان کو باقاعدہ ہدایات جاری کرتے ہیں۔ طالبان کے پاس خود کو برقرار رکھنے کے لئے مالی وسائل نہیں ہیں اور وہ اسلحہ، اس کے جنگجوؤں کو ادائیگی کرنے کے لئے نقد رقم اور دوسرے اخراجات کے لئے بھی پاکستان کے آئی ایس آئی اور فوج پر پوری طرح انحصار کرتے ہیں۔

یہ رقم کروڑوں امریکی ڈالرز ہوں گے اور پاکستان اس کی ادائیگی کرتا رہتا ہے کیونکہ وہ طالبان کو اپنی سرحد کے ساتھ پڑوسی ملک (افغانستان) کو کمزور کھنے کے لئے استعمال کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ کشمیر میں بھارت پر دباؤ برقرار رکھنے کے لئے دہشت گرد گروہوں کا استعمال کرتے ہیں۔

سنڈے گارڈین: حال ہی میں، طالبان کے تین اعلی رہنما جن میں سے ایک حقانی نیٹ ورک سے وابستہ ہے، کو قیدی تبادلہ میں رہا کیا گیا۔ آپ اس معاہدے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

ڈاکٹر عبداللہ ہیواد: حقانی نیٹ ورک چین آف کمانڈز کا ایک سلسلہ ہے جس کا کنٹرول مسلح دہشت گرد تنظیم کے ہاتھ میں ہے جس نے ہزاروں افغانوں کو ہلاک کیا ہے۔ یہ بالکل مکروہ بات ہے کہ انتخابی نتائج کے لئے امریکہ اور پاکستان سے مدد حاصل کرنے کے لئے، صدر غنی نے ان خطرناک دہشت گردوں کو رہا کرنے کا انتخاب کیا۔

سنڈے گارڈین: کیا امریکی افواج نے حقانی نیٹ ورک کو کمزور کیا ہے؟

ڈاکٹرعبداللہ ہیواد: حقانی نیٹ ورک پاکستان کا ایک ذیلی ادارہ ہے، ایک دہشت گرد تنظیم جسے آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کوئی بھی کارروائی پاکستان کی آئی ایس آئی اور اس کی بین الاقوامی کارروائیوں کے لئے براہ راست خطرہ ہے۔

امریکی حکومت نے کبھی بھی حقانی نیٹ ورک کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی، لیکن ان چیک پوسٹوں کو خالی چھوڑ دیا جو ان کے زیر کنٹرول ڈیورنڈ لائن پر پاکستانی افواج کے پاس تھیں جس کے نتیجے میں حقانی اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں اب آزادانہ طور پر افغانستان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں اور وسط ایشیا اور روس کے طرف بھی بڑھ رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال تاجکستان کی سرحد پر ایک پوسٹ پر حالیہ حملہ ہے۔

سنڈے گارڈین: آپ نے ٹویٹر پر افغانستان کی آزاد بلوچستان کی حمایت کرنے کی بات کی ہے۔ کیا یہ محض بیان بازی ہے یا افغانستان کی قومی پالیسی کا ایک حصہ؟

ڈاکٹر عبداللہ ہیواد: جب میں آزاد بلوچستان کی بات کرتا ہوں تو ایسا نہیں ہے کہ جیسے ہم مسلح جدوجہد کا ایک نیا باب کھول رہے ہوں یا ہم اس خطے میں جنگ کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔

ہندوستان اور پاکستان کو برطانوی قبضے سے آزادی ملنے سے پہلے 11 اگست 1947 کو بلوچستان کو آزادی دی گئی تھی اور اس کا اپنا جھنڈا، پارلیمنٹ کے ایوان بالا اور ایوان زیریں، امیر یا صدر تھے، لیکن 27 مارچ1947 کو، بلوچستان پر غیرقانونی طور پر پاکستانیوں نے قبضہ کیا اورتب سے ہی بلوچ قومی آزادی کے جہد و جہد کر رہے ہیں۔

جب محمد داؤد خان جو افغانستان کے پہلے صدر تھے، انہوں نے بلوچوں کو ان کی آزادی کے حصول کی ترغیب دی۔ 1973 میں آزاد بلوچستان کے لئے پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد کی گئی، لیکن جلد ہی ایران اور اس کے فرانسیسی میراج جیٹ طیاروں کی مدد سے بلوچ قوم کی آواز کو دبا دیا گیا۔

جب ڈاکٹر نجیب اللہ نے افغانستان کے صدر کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے بلوچوں کو پاکستانیوں سے آزادی دلانے میں مدد کرنے کی کوشش کی، لیکن جب بھی افغانیوں نے بلوچوں کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بد قسمتی سے حالات کبھی بھی ا?ن کے حق میں نہیں رہے۔

چونکہ میں حکومت میں نہیں ہوں، میں اس بارے میں کوئی تبصرہ کرنے سے قاصر ہوں کہ آیا افغانستان کی حکومت بلوچوں کی مدد کر رہی ہے یا نہیں۔ لیکن یہ افغان حکومتوں کا اولین زمہ داری ہونی چاہئیکہ وہ بلوچوں کی مدد کریں۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان آزاد ہو تو ا?س کے لئے بلوچوں کو ان کی آزادی حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ آئی ایس آئی کے تعاون سے دہشت گردوں کے تمام اڈے یا تو پشتونستان یا بلوچستان میں قائم ہیں۔ کوئٹہ میں طالبان شوریٰ اس کی ایک مثال ہے۔

سنڈے گارڈین: مبصرین کا خیال ہے کہ ہندوستان کو افغانستان میں ہونے والے امن مذاکرات کا فریق بننا چاہئے تھا کیونکہ وہ ملک کے عام لوگوں میں اس کی خیر خواہی اور وہاں ہونے والے ترقیاتی اور بنیادی ڈھانچے کے کاموں کی وجہ سے مشہور ہے۔ آپ اس کا کیا جواب دیں گے؟

ڈاکٹر عبداللہ ہیواد: افغانستان کی آزادی کے بعد سے ہی ہندوستان، افغانستان کے لوگوں کے لئے سب سے پسندیدہ قوم رہا ہے، تجارت ہو یا دوطرفہ تعلقات۔

ہندوستان کے افغان امن مزاکرات میں شامل ہونا انتہائی ضروری ہے کیونکہ ہمارا امن براہ راست ہندوستان میں امن سے وابستہ ہے۔ متعدد مواقع پر ہم نے کابل میں ہندوستانی سفارتخانے پر زور دیا ہے کہ وہ امن مذاکرات میں شامل ہوں اور ایسے تقریبات کا اہتمام کریں جس میں افغان امن سے متعلق مختلف اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جاسکے۔

تاہم اب تک وہ صرف افغان حکومت کے امن اقدام کی حمایت کر رہے ہیں اور یہاں تک کہ ہندوستانی این جی اوز بھی افغان امن مکالمہ یا انٹرا افغان امن مذاکرات میں شامل نہیں ہوتیں۔

مجھے یقین ہے کہ ہندوستانی حکومت افغان امن مذاکرات اور مکالموں میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے، لیکن ابھی تک ہم نے اس معاملے پر ایسا کچھ نہیں سنا ہے۔

سنڈے گارڈین: افغانستان میں امن قائم کرنے میں افغانستان کے گورنرز کی اسمبلی کتنی اہم ہے؟

ڈاکٹر عبداللہ ہیواد: افغانستان کے گورنرز اسمبلی ایک انتہائی اہم غیر سرکاری ادارہ ہے جس کا صوبوں میں کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے اور یہ بین الاقوامی طور پر افغان امن مذاکرات میں مختلف اسٹیک ہولڈرز کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے ایک پ?ل کی حیثیت سے کام کرسکتا ہے۔

ہم (ممبر) صوبوں میں گورنر رہ چکے ہیں اور ہم اب بھی ہمارے ساتھ لڑنے والے طالبان کے راہنماہوں سے رابطے میں ہیں۔ ہم جنگجوؤں اور برادری کے عمائدین، علمائے کرام اور دیگر بہت سے شراکت کاروں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

صوبوں میں امن قائم کرنے کے لئے افغانستان کے گورنرز اسمبلی کو براہ راست شامل ہونا چاہئے کیونکہ ہمارے ساتھ 66 سے زیادہ گورنر (موجودہ اور سابقہ) ہیں جو افغانستان میں امن قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

نوٹ:یہ انٹرویوڈاکٹرعبداللہ ہیواد نے ہندوستانی اخبار/www.sundayguardianlive.comکے ابھینندن مشرا کو دیا تھا جسے زرمبش کی ٹیم نے ترجمہ کرکے شائع کیا۔
ادارہ سنگر،زرمبش اور مشرا کا شکر گزار ہے۔

Share This Article
Leave a Comment