بلند حوصلہ فتح کی ضامن ہے | کمال بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
7 Min Read

عوامی طاقت کسی جبر سے شکست نہیں کھا سکتا ہے۔ تربت میں بلوچ فرزندوں کی پاکستانی فوج کے تشکیل کردہ گروہ سی ٹی ڈی کے ہاتھوں7 بلوچوں کی شہادت کے بعد عوامی رد عمل دیکھ کر یہ احساس پیدا ہوجاتاہے کہ عوامی تحریک ہر وہ امور سر انجام دے سکتا ہے جو طاقت کی وجہ سے دبا ہوا ہے۔

بلوچستان کی روایت رہی ہے کہ وہ ہمیشہ طاقتور کے خلاف دیوار بن کر کھڑی ہوئی ہے ، کبھی یہ نہیں دیکھتی کہ اس کے پاس طاقت کتنی ہے ؟یا طاقت موجودہے بھی یا نہیں؟ لیکن سچ یہی ہے کہ بلوچستان کی روایت اور مزاحمت نے بلوچ قوم کی تاریخ کو سنہری ادوار میں شامل کیا ہے۔بلوچوں کو اپنے ایسے اعمال پر فخر محسوس کرنا ہوگا کہ ہمیں طاقت نے کبھی زیر نہیں کیا ہے، صرف بھیڑ کے لبادے میں چھپے ہوئے بھیڑیوں نے آستین کا سانپ بن کر دھوکے سے دشمن کے منصوبوں کو کامیاب بنانے کی کوشش کی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیااس وقت ہم ایسے کرداروں کو پہچان چکے ہیں۔۔؟یا ان کے کردار سے واقف ہوچکے ہیں؟بلوچستان کی تاریخ میں پاکستانی دھوکے بازی کی کئی مثالیں موجود ہیں کبھی آغا عبدالکریم کو دھوکہ دیا جاتا ہے اور کبھی بابو نوروز کو شہید کیا جاتا ہے یا کبھی جنرل ڈائر کے لئے عیدو جیسے کرداروں نے قوم کو نقصان سے دو چار کیا ہے۔ مگر ہمیں یاد رکھناہوگا کہ ان دھوکوں سے ہمیں سبق حاصل کرناہوگا، کچھ واقعات سے ہمیں سبق ملا ہے اور اس سبق کو حاصل کرنے کی وجہ سے ہم بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔

آج بلوچ قومی تحریک آزادی کے کارواں میں جتنی بھی قوتیں موجود ہیں انہوں نے اپنی تاریخ اور مزاحمت سے سبق حاصل کی ہے اور آج پاکستان کے خلاف نبرد آزما ہیں۔اب بلوچ قوم کو یقین آچکا ہے کہ ہماری تاریخ ،ثقافت، کلچر کو محفوظ رکھنے والے سرباز دھوکے میں نہیں آئیں گے اور اسی امید نے اس تحریک میں روز بہ روز جان آرہی ہے ۔

اس وقت تربت میں شہید فدا احمد چوک میں عوام کا ایک سمندر موجود ہے ۔جسے مزیدموجزن بنانے کی ضرورت ہے لیکن اس بات کو نظر میں رکھنا ہوگا کہ اب ہمیں دھوکے میں نہیں آنا ہے۔ دھوکہ اس امید کو خاک میں ملا دیتا ہے، بلند حوصلے کے مالک عوام کے اس جذبے کو اور مضبوط کر نا ہوگا۔

اس آواز کو پورے بلوچستان میں پہنچانا ہوگا ۔میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ ہمیں ریاست اور اسکے نام نہاد پارلیمانی سیاست کرنے والوں سے امید نہیں رکھنی چاہئیے بس یہ احساس پیدا کرنا ہوگا کہ خوف کے سائے میں خوف کو شکست دینا ہوگا۔ عوام کی ہمت کو دیکھیں جب تربت کے عوام بازار سے نکلے بلوچ قومی ہیرو اوردرویش صفت انسان ماما قدیر حاضر ہو جاتے ہیںاور ڈاکٹر شلی بلوچ بھی پہنچ جاتی ہیں۔ اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہوگی۔

ایسے انسان آپ لو گو ں کی خاطر خود کو وقف کر چکے ہیں وہ حاضر ہو جاتے ہیں ،یہ فخر کی بات ہے بلوچ نیشنل موومنٹ یو کے میں احتجاج کا اعلاج کرتا ہے۔لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی ہے ہمیں اس دبے ہوئے آواز کو پورے بلوچستان میں پہنچانا ہے جس طرح شہید ملک ناز ،شہید ورنا حیات بلوچ کی شہادت پر پورے بلوچستان میں بلوچ ایک ہم آواز ہوئے، ایسی طاقت کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے مستقبل کو محفوظ کر سکیں اور ثابت کریںکہ مغرب سے مشرق تک سب بلوچ ایک ہیں ۔خاص کر سندھ اور پنجاب کے بلوچ بھی اس تحر یک کو موثر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ساتھ ہی بلوچ کے ڈائسپورا بھی آرام سے نہیں بیٹھےیا صرف سوشل میڈیا پر چند پوسٹ سے گزارہ نہیں کرے وہ دنیا کو یاد دہانی کرے۔

بلوچستان کی صورت حال کس نہج پہ ہے یہاں کی جبر اور ظلم سے کتنے لوگ خون کے آنسو رو رہے ہیں اگر ہم جانتے ہیں اورہم بلوچ کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تواس عوامی تحریک کو موثر کرنا ہوگا ۔میرے گذشتہ تحریر اور کچھ پوسٹ سے چند دوست یہ سوال کر رہے ہیں کہ اس عوامی تحریک کی رہنمائی کون کرے گا۔لیکن یہ لوگ صرف دشمن کے کام کو آسان کرنے کی کوشش میں ہے مگر دوست یہ بھول چکےہیں کہ عوام اپنا رہنماء خود ہے جب عوام کا سیلاب اُمنڈ آتا ہے سب کو بہا کر لے جاتا ہےاس تحریک کو لیڈ عوام کو کرنا ہوگا کہ اپنی مستقبل کو محفوظ کرنے کےلئے۔لیکن میرایہ سوال چند نام نہاد دانشوروں سے ہے جوخوفزدہ ہیں جو راہ دکھانے کے بدلے میں ایسے سوال کرتےہیں ۔وہ صرف اپنا ٹائم پاس کرتے ہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے، میں ان سے یہ عرض کرتا ہوںچلوں کہ اپنے علم سے عوام کو حوصلہ دو نہ کہ ان کا حوصلہ پست کرنے کے لئے سوال کرے۔

خاص کر بلوچ آزادی کے تحریک کے رنماؤں سے اپیل ہے کہ وہ اپنے اندر برداشت، رواداری کا مادہ پیدا کریں۔ رہنماؤں کی مشترکہ حکمت عملی ہی دشمن کی موت ہوگی۔ ہمارا مقصد بلوچ وبلوچستان کی آزادی ہے لیکن ہمارے طریقہ کار مختلف ہیں۔ اب ضروری ہے کہ مشترکہ پالیسی کے تحت حکمت عملی ترتیب دیں تاکہ عوام کا حوصلہ مزید بلند ہو۔

٭٭٭

Share This Article
Leave a Comment