پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑنے اعتراف کیا ہے کہ وفاق اور صوبائی سطح پر جبری گمشدگیوں کے سیل بنے ہوئے ہیں۔
واضع رہے کہ بلوچستان وخیبر پختونخواسمیت پاکستان بھر میں جبریوں گمشدگیوں کا سلسلہ گذشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے اور لاپتہ افراد لواحقین ،سیاسی وسماجی تنظیمیں سمیت انسانی حقو ق ادارے الزام عائد کرتے ہیں کہ پاکستانی فوج و اخفیہ ادارے جبری گمشدگیو ں میں ملوث ہیں لیکن فوج کی جانب سے ان الزامات کو ہمیشہ مسترد کیا جاتا رہا ہے ۔
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ جبری گمشدگی اور گرفتاریوں میں فرق کرنا چاہیے، بعض اوقات قانونی کارروائی کو بھی جبری گمشدگی کا نام دیا جاتا ہے۔ قانون نافذ کرن والے ادارے گرفتار کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے بعض شورش زدہ علاقوں میں جبری گمشدگیوں کی شکایات زیادہ تھیں۔ کسی بلوچ طالب علم کو جبری طور پر لاپتا نہیں کیا گیا۔ کسی الزام میں گرفتار ہو اور عدالت میں پیش ہو تو اسے جبری گمشدگی نہیں کہیں گے۔
انہوں نے کہاکہ جبری گمشدگیوں پر وفاق اور صوبائی سطح پر سیل بنے ہوئے ہیں۔ لاپتا افراد کی تعداد سے متعلق مجھے اختلاف ہے، کوئی کہتا ہے کہ 8 ہزار افراد لاپتا ہیں۔ پچھلی پارلیمان میں غلط الزام پر سزا کیلئے قانون سازی تجویز کی گئی تھی۔ اس کے لیے لوگ تیار نہیں وہ کہتے ہیں ہمیں جھوٹ بولنے کا اختار ہونا چاہیے۔