ریاستی ادارے ہماری آئینی جدوجہد سے خائف ہوکر میرا نام باربار ای سی ایل لسٹ میں ڈھال رہے ہیں،ماما قدیر

0
119

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کوئٹہ میں تنظیم کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی ادارے وی بی ایم پی کی پرامن اور آئینی جد و جہد سے خائف ہوکر میرا نام بار بار ای سی ایل لسٹ میں شامل کر رہے ہیں۔

اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئر مین نصر اللہ بلوچ ، حوران بلوچ اوراس وکیل بھی موجود تھا۔

سال2015 میں جب میں امریکہ جانے کے لیے کراچی ائیرپورٹ پہنچا تو ایمیگریشن کے مراحل سے گزر کر لائونچ میں جاکر بیٹھا تو وہاں پر ائیرپورٹ انتظامیہ اور دیگر سرکاری اداروں کے اہلکار میرے پاس آکر مجھے سے کہا کہ میرا نام ای سی ایل لسٹ میں ہے میں امریکہ نہیں جاسکتا ہوں۔ تو انہوں نے مجھے امریکہ جانے نہیں دیا پھر میں نے سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی کہ میرے نام کو ای سی ایل لسٹ سے نکالا جائے تو سندھ ہائی کورٹ سے جواب طلب کیا کہ قدیر بلوچ کا نام کیوں ای سی ایل لسٹ میں ڈالا گیا ہے تو حکومت سندھ ہائی کورٹ کو مطمئن نہیں کرسکا تو سندھ ہائی کورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ میرا نام ای سی ایل لسٹ سے نکالا جائے تو میرا نام ای سی ایل لسٹ سے نکالا گیا۔

انہوں نے کہا کہ دوسری مرتبہ 2018 میں میرا نام دوبارہ ای سی ایل میں ڈھالا گیا تو بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کیا جہاں پر حکومت نے معزز عدالت کے سامنے اپنے موقف کا دفاع نہیں کرسکا اور عدلیہ نے میرے حق میں فیصلہ دیا اور میرا نام ای سی ایل سے نکالا گیا۔

ماما قدیر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سال 2020 میں تیسری مرتبہ میرا نام ای سی ایل کے لسٹ میں شامل کردیا تو میںنے پھر بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو معزز عدالت نے حکومت سے جواب طلب کی کہ ماما قدیر کا نام کیوں بار بار ای سی ایل لسٹ میں شامل کیا جارہا ہے تو حکومت نے میرے خلاف مختلف الزامات لگائے کہ 2020 سے میرا کیس مئی 2023 تک بلوچستان ہائی کورٹ میں چلتا رہا جہاں پر حکومت نے مجھ پر لگائے گئے الزامات ثابت نہیں کرسکا تو بلوچستان ہائی نے 5 مئی 2023 کو میرے حق میں فیصلہ دیا کہ ماما قدیر کا نام ای سی ایل لسٹ سے نکالا جائے تو میرا نام ای سی ایل لسٹ سے نکالا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مگر پھر چوتھی مرتبہ موجودہ نگراں حکومت نے میرا نام ای سی ایل لسٹ میں ڈال دیا ہے۔

ماما قدیر نے کہا کہ میں ایک انسانی حقوق کا کارکن ہوں اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم سے 2009 سے پرامن اور ملکی قوانین کے تحت جد و جہد کرتا آرہا ہوں۔ ہمارے جد و جہد کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں ماورائے آئین اقدامات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا راستہ روکا جائے اور میں آئین کی بالادستی ہو اور ملک کے طاقتور ادارے جو بھی اقدام اٹھائے وہ ملکی کے تحت اٹھائے اور کوئی ادارہ اپنے آپ کو ملکی قوانین سے بالاتر نہ سمجھے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو انہیں گرفتاری کے بعد 24 گھنٹے کے اندر اندر کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے۔ لاپتہ افراد کو فوری طور پر منظر عام پر لایا جائے جو مجرم ہے انہیں عدالت کے ذریعے سزا دی جائے جو بےقصور ہے انہیں رہا گیا جائے۔ شہریوں کی جبری گمشدگیاں ایک ماورائے آئین اقدام ہے جسکی روک تھام کیا جائے جو لاپتہ افراد اس دنیا میں نہیں ہے انکے خاندان کو بتایا جائے۔ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کیا جائے اور جو ملکی ادارے جبری گمشدگیوں میں ملوث ہے انکے اختیارات کو کم کرنے اور انکے ماورائے آئین اقدامات کے خلاف قانون سازی کی جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں نے اپنے جد و جہد کا مقصد آپ لوگوں کے سامنے بیان کیا جس سے آپ لوگ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہو کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم سے ہم جو جد و جہد کررہے ہیں وہ ملکی قوانین سے منحرف نہیں بلکہ ملکی قوانین کے تحت ہے ۔پرامن اور آئینی جد و جہد کے باوجود میرے سمجھ سے بالاتر ہے کہ میرا نام کوئی بار بار ای سی ایل لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست اور ریاستی ادارے ہمارے پرامن اور آئینی جد و جہد سے خائف ہیں انہیں صرف ڈر یہ ہے کہ ہم تنظیمی سطح پر ریاستی اداروں کے ماورائے آئین اقدامات کو ملکی اور بین اقوامی سطح پر اجاگر کررہے ہیں جس سے انکی بدنامی ہورہی ہے جن کی وجہ سے وہ ہمارے تنظیم کے رہنمائوں کو مختلف طریقوں سے تنگ کرتے آرہے ہیں اور میرا نام بار بار ای سی ایل میں شامل کرتے آرہے ہیں ۔ہم ریاست اور ریاستی اداروں کو کہنا چاہتے ہیں کہ آپ لوگوں کہ یہ اقدامات ملکی آئین و قانون اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور پرامن اور آئینی آوازوں پر قدغن لگانے کے مترادف ہے جسکی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور ریاست اور ریاستی اداروں پر واضع کرتے ہیں کہ ہم اسطرح کے اقدامات سے اپنے جد و جہد سے دستبردار نہیں ہونگے بلکہ ہم مستقل مزاجی سے اپنا پرامن اور آئینی جد و جہد کو جاری رکھیں گے۔

آخر میں انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت سیاسی پارٹیوں، طلباء تنظیموں، انسانی حقوق کی تنظیموں، صحافی و وکلاء برادری سمیت تمام مکاتب فکر کے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ ریاست اور ریاستی اداروں کے اس ناروا سلوک کے خلاف بھرپور آواز اٹھائے اور ہمیں اور لاپتہ افراد کے حوالے سے ہمارے پرامن و آئینی جد و جہد کو تحفظ فراہم کرے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here