بلوچ طلبا تنظیم بی ایس او آزاد کے رہنما شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کو 4 اکتوبر کو 7 سال مکمل ہونے پرفیملی کی جانب سے احتجاجی ریلی کے ا نعقاد کا اعلان کیا گیا ہے ۔
اس سلسلے میں شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیما بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ میرے بھائی شبیر بلوچ کو 4 اکتوبر 2016 کو تربت کے علاقے گورکوپ سے ان کی زوجہ زرینہ کے سامنے جبری طور پر سیکیورٹی فورسز اغوا کر کے لے گئے جن کے بارے میں ہمیں آج تک کوئی اطلاع موصول نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں، یا تو وہ ہیں بھی یا نہیں۔
سیما بلوچ نے اپنے بیان میں کہا کہ ہماری زندگیاں 4 اکتوبر 2016 کے بعد سے تباہ ہوگئی ہیں۔ میری ماں راتوں میں اُٹھ کر بیٹھ جاتی ہیں، شاید اس کا بیٹا دروازہ کھٹکھٹا دے، اور ایسا نہ ہو کہ وہ سو رہے ہو۔ میری بہنیں ہنسنا مسکرانہ تو شاید بھول گئیں ہیں۔ زرینہ جس کا شوہر اس کے سامنے اٹھایا گیا وہ خود ابھی تک چھوٹی ہے، جہاں زرینہ کو اپنے شوہر کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنی تھی، وہیں زرینہ کو یہ نہیں پتا کہ اس کا شوہر زندہ بھی ہے کہ نہیں۔جس دن سے شبیر لاپتہ ہوا ہے، اس دن سے میں کراچی، کوئٹہ، اسلام آباد میں دھکے کھا رہی ہوں لیکن ہمیں شبیر کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں۔
انہوں نے کہا کہ شبیر بلوچ کو 4 اکتوبر 2016 کو تربت کے علاقے گورکوپ سے پاکستانی فورسز نے دیگر 20 افراد کے ساتھ غیر قانونی حراست میں لے کر لاپتہ کیا گیا، ایک دو ہفتے بعد دیگر تمام افراد رہا ہو گئے لیکن شبیر کی تاحال کوئی خبر نہیں بلوچستان کے کئی لاپتہ افراد کی طرح شبیر بلوچ کا کیس بھی وفاقی حکومت کی جانب سے قائم جبری گمشدگیوں کی انکوائری کے کمیشن میں درج ہے۔
سیما بلوچ کاکہنا تھا کہ ہم متعدد بار کمیشن کے سامنے پیش ہوئے لیکن حل کوئی نہیں۔4 اکتوبر 2023 کو آرٹس کونسل تا کراچی پریس کلب ایک احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا جائے گا، اور اسی دن سوشل میڈیا کیمپین بھی ہوگا جس کا ہیش ٹیگ #SaveShabirBaloch ہوگا۔”