پاکستان بھر کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے فرانزک آڈٹ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) پر زمینوں پر قبضے کے سنگین الزامات ہیں، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) بھی بظاہر زمینوں پر قبضوں میں ملوث ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے فرانزک آڈٹ سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہم نے ایف آئی اے کی رپورٹ کا جائزہ لیا ہے، رپورٹ کے مطابق 175 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ رپورٹ میں ایک مجموعی تخمینہ دیا گیا مگر سوسائٹیوں سے وضاحت طلب نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کیسے نجی بزنس میں اپنا نام استعمال کر سکتا ہے؟ کیا یہ مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی پر زمینوں پر قبضے کے سنگین الزامات ہیں ، آئی بی بھی بظاہر زمینوں پر قبضوں میں ملوث ہے، ان اداروں کا کام عوام کی خدمت کرنا ہے، ہاؤسنگ سوسائٹی چلانا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آئی بی کی ہاؤسنگ سوسائٹی ہوگی تو اس کے ساتھ کون مقابلہ کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری اداروں کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا معاملہ ہمارے سامنے نہیں، اس معاملے پر الگ سے از خود نوٹس ہو سکتا ہے، دیکھتے ہیں از خود نوٹس لینا ہے یا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بہتر ہو گا ہمارے سامنے کوئی درخواست آ جائے، ہم از خود نوٹس لینے میں محتاط ہیں ، از خود نوٹس کا مقصد عوامی مفاد کا تحفظ ہے۔