بلوچستان میں جو کونسلر نہیں بن سکتا تھا اسے وزیر اعظم بنا دیا گیا، اختر مینگل

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سر دار اختر مینگل نے جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلو چستان نیشنل پارٹی کو کسی کی ذات اور پارٹی پر اعتراض نہیں لیکن نگران وزیراعظم کی تعیناتی سے متعلق ہمیں حیرانگی ہے ، بی اے پی بنا نے والے اپنے لوگوں کو خود اکٹھا نہیں کر سکے ۔

سر دار اختر مینگل نے کہا کہ نگران وزیراعظم سے بلوچستان کے مسائل کیسے حل ہوں گے، ہم نے کسی کے نگران وزیراعظم بننے پر اعتراض نہیں کیا تھا لیکن بلوچستان میں جو بیس سے پچیس سال سے تضاد چل رہا ہے جو افراد کونسلرز نہیں بن سکتے تھے لیکن وہ ایم پی ایز بن گئے ہیں تو ان سے توقع کیسے کرسکتے ہیں وہ مسائل حل کرسکتے ہیں اگر انکے ما ضی دیکھے جائیں تو بلوچستان کے مسائل کو مسائل ہی نہیں سمجھتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے دور میں 4 سو سے زائد لاپتہ افراد بازیا ب ہو کر آئے جنہیں یہ 100سے زیا دہ نہیں سمجھتے تھے ۔

انہوں نے کہاکہ بلو چستان عوامی پارٹی کو بنانے والے اپنے ہی بندوں کو اکھٹا نہیں کرسکے جس کی وجہ سے کوئی عبدالقدوس بزنجو، کوئی جام کمال اور کوئی میر صادق سنجرانی کی جھولی میں گرگیا ہے، بلوچستان نیشنل پارٹی نے جام کمال خان کو کہا تھا کہ ہم ساتھ چلنا چاہتے ہیں کیونکہ ہمارے نمائندے بھی ووٹ حاصل کر کے اسمبلی آئے ہیں لیکن مجبوراً ان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانی پڑی۔

سرداراختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن اپنا وہ کردار ادا نہیں کرسکی کیونکہ میر عبدالقدوس بزنجو نے وہ مظالم اور کارروائیاں نہیں کیں جو جام کمال خان، نواب ثناءاللہ زہری، ڈاکٹر عبدالمالک کے دور میں اپوزیشن کے ساتھ کی گئیں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میر عبدالقدوس بزنجو نے سب کو ایک ترازو میں رکھ کر تولا جس کی وجہ سے ہم ان کیخلاف نہیں گئے۔

انہوں نے کہاکہ میر محمد صادق سنجرانی کے ساتھ سلام دعاءہے لیکن کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ ہم نے محمد صادق سنجرانی کو ووٹ دیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ موجود گورنر بلوچستان ملک عبدالوالی خان کاکڑ نے بطور گورنر نگران وزیراعظم کی تقریب میں شرکت کی جو کہ انکی آئینی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے کہا کہ گلہ شکوہ ہمیشہ گھر کے بڑوں سے کیا جاتا ہے، نواب اکبر خان بگٹی بھی پارلیمانی سیا ست کیا کرتے تھے لیکن وہ کیا حالات تھے، جنہوں نے نواب اکبر بگٹی کو پہاڑوں تک پہنچا دیا اور وہاں بھی انہیں بخشا نہیں گیا، بلوچستان کے مجموعی حالات سب کے سامنے ہیں، بلوچستان کو ڈیتھ اسکواڈ کے حوالے کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 90 دن کے لئے آنے والے 9 سال بھی گزار دیتے ہیں، فیصلہ کرنے والے نہ ہم سے پوچھتے ہیں اور نہ ہی آپ سے پوچھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف سے آخری سفر میں کہا تھا کہ اختیار آپکے ہیں لیکن ایک بات کا خیال رکھیں کہ نگراں کا کام خیال رکھنا ہوتا ہے، نگراں وزیراعظم کے حلف اٹھانے کے بعد فیصلے دیکھنے ہوں گے کہ وہ جمہوری فیصلے ہیں یا غیر جمہوری۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اسحاق ڈار کے نام پر فیصلے میں بٹھانے کے قابل نہیںسمجھا لیکن نواز شریف کو لکھے خط سے بہت سے لوگ اتفاق کا اظہار کریں گے۔

Share This Article
Leave a Comment