افغانستان میں کورونا ایک بڑی تباہی برپا کریگی،رپورٹ

0
231

امریکی ارکان کانگریس کے لیے تیار کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا کا بحران افغانستان میں جنگ بندی کی کوششوں کے لیے ایک دھچکا ثابت ہو رہا ہے۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہا کہ افغانستان میں صحت کا پہلے سے مفلوج نظام،غذائی قلت، غیر محفوظ سرحدیں، بڑے پیمانے پر لوگوں کی نقل مکانی اور ایران کے ساتھ ایک لمبی سرحد ایسے عوامل ہیں، جو آنے والے مہینوں میں ایک تباہی برپا کر سکتے ہیں۔

یہ رپورٹ افغانستان میں تعمیر نو کی کوششوں پر نظر رکھنے والے امریکی ادارے “سِگار” کے اسپیشل انسپکٹر جنرل جان سوپکو نے تیار کی ہے۔ اس ادارے کا کام افغانستان میں امریکا کی جانب سے تعمیر نو کے لیے جاری اربوں ڈالر کے منصوبوں میں ممکنہ غبن اور بدعنوانی کی روک تھام کے لیے ان کا آڈٹ کرنا اور اخراجات میں شفافیت لانا ہے۔

جان سوپکو کے مطابق ملک میں کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے سے یہ بحران مزید گھمبیر ہو سکتا ہے۔

بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم “سیو دی چلڈرن” کے مطابق ملک میں ستر لاکھ سے زائد بچوں کے بھوک و افلاس کے شکار ہونے کا خدشہ ہے۔ تنظم کے مطابق کورونا کے دوران لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندیوں کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں جس کے باعث ملک کی ایک تہائی آبادی کو غذائی قلت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے اس سال بتدریج اپنی فوجیں نکالنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ لیکن پچھلے دو ماہ کے دوران امریکا میں کورونا کے بحران نے بظاہر اس عمل کو سست کر دیا ہے۔

افغانستان میں جنگ بندی سے متعلق مذاکرات پر ابتدائی بات چیت دس مارچ کو ہونی تھی لیکن فریقین کے درمیان قیدیوں کی رہائی پر اختلافات کی وجہ سے یہ عمل تعطل کا شکار ہو گیا۔

واشنگٹن کا افغان حکومت اور طالبان پر دباو¿ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ہزاروں قیدیوں کو جلد رہا کردیں۔ تاہم کابل حکومت کو اس عمل پر تحفظات ہیں۔

واشنگٹن کو خدشہ ہے کہ اگر کورونا کی وبا کے باعث جیل میں موجود اہم قیدی مرنے لگے تو امریکا اور طالبان کے درمیان انتیس فروری کو دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کو دھچکا لگ سکتا ہے۔

افغان میڈیا کے مطابق ملک میں اب تک کووڈ انیس کے دو ہزار تین سو کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ اڑسٹھ اموات ہوئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق جنگ زدہ ملک میں حکومت کے پاس ٹیسٹنگ کی صلاحیت نہایت محدود ہے، جس کے باعث کیسز کی اصل تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here