کوئٹہ میں بلوچ لاپتہ افراد لواحقین کا احتجاج جاری

0
117

بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5118 دن ہوگئے۔

قلات سے سیاسی سماجی کارکنان اللہ بخش مینگل نبی بخش دہوار بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

اس موقع پروی بی ایم پی کےوائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انقابی تنظیموں میں موقع پرستی کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے ہمیں ہر قدم پہ ہوشیار رہنا ہوگا۔ درباری زہنیت کو اپنے بیچ سے نکالنا ہوگا۔ عوام اور بعض سیاسی شخصیات کی قربت کی خاطر قوم کے مفاد کو داو پر لگانے والوں سے دور رہنا ہوگا۔ بیشک ہماری تعداد اور کم ہو اس سے فرک نہیں پڑتا لیکن ایک بار موقع پرست ہمارے درمیان گھس بیٹھے وہ اختلاف کو ضرور ہوا دینگے ایسے انسان کی تربیت کسی اور ماحول میں ہوئی ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ لاکھوں بلوچوں کی خون اور جزبات کی بنیاد پر جس نرگیت کی بنیاد ڈالی جا رہی ہے یہ تباہی کا باعث ہے یہ تباہی ہے اسے روکھنے کے لئے جہاں عمل موثر ہتھیار رہا ہے وہاں بہترین لٹریچر کی بھی ضرورت ہے۔ زہنی جسمانی عیاشی کے ذریعے قوم کی خدمت نہیں ہو سکتی۔ اس نقط کو ضرور سمجھنا چاہئے یہ مختلف شخصیات اور گمنام انقلابی اپنا عمل اپنے موثر قردار کے ذریعے ثابت کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چند موقع پرستوں کو یہ موقع نہیں دینا چاہئے کہ وہ الٹے سیدھے سوالات کے اپنی انا کی تسکین یا ردعمل کی طور پر بلوچ قومی تحریک کے خلاف زہر پھیلائیں جن کو مقبولیت اور شہرت کا شوق ہے ان پر کوئی پابندی نہیں وہ کوئی اور میدان بھی منتخب کر سکتے ہیں۔ موقع پرست اور سوشل میڈیا کے نادان دوستوں کو آخر کب تک سمجھانا پڑے گا۔ کہ انقلاب اور خدخہد اسان نہیں ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہناتھا کہ دواہم تجاویز غور کے لئے رکہتا ہوں پہلے یہ کہ ہماری توانائی اور وقت ایک دوسرے کے خلاف خرچ ہونے کے بجائے بلوچ قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ریاست کے خلاف کارآمد ہو دوسرا اتحاد اتفاق کی فضا کیسے پیدا کی جائے۔ تنقید اور قردار کشی میں فرق کہ جو کچھ سوشل میڈیا پرنٹ میڈیا میں تنقید اور درستگی کے نام پر ہورہا ہے اسے درستگی تو نہیں البتہ ہم خرابی اور اتحاد کے بجائے انتشار کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here