افغان سیکیورٹی فورسز کے مزید 40 اہلکارطالبان نے رہا کردیئے

0
267

افغانستان میں جاری پرتشدد واقعات کے دوران طالبان نے افغانستان میں مزید 40 سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو قید سے رہا کردیا۔

طالبان کے قطر کے دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں 40 قیدیوں کی رہائی کی تصدیق کی۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ اسلامک امارات آف افغانستان نے آج دوپہر میں صوبہ قندوز میں کابل انتظامیہ کے 40 فوجیوں کو رہا کردیا ہے۔

سہیل شاہین نے کہا کہ اسلامی امارات قیدیوں کی رہائی کا عمل تیز تر کرنا چاہ رہا ہے تاکہ کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر قیدیوں کی جانوں کو بچایا جا سکے۔

قیدیوں کی رہائی ایک ایسے موقع پر کی گئی ہے جب افغانستان میں پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور طالبان اور افغان حکومت ایک دوسرے پر پرتشدد واقعات میں اضافے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔

افغانستان کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے کہا کہ شدت پسند امریکا سے کیے گئے معاہدے کے تحت امن کے قیام، شہریوں کی حفاظت اور پرتشدد واقعات میں کمی میں ناکام ہو گئے ہیں۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ 29 فروری سے 19 اپریل تک طالبان کے حملوں میں 337 شہری ہلاک، 452 زخمی اور 164 کو اغوا کر لیا گیا اور طالبان کو امن کے قیام کے اپنے دعوو¿ں سے قبل ان اقدامات کو ضرور دیکھ لینا چاہیے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ کابل انتظامیہ کے فوجی اور ان کے غیر ملکی معاونین ہیں جو لوگوں کو مار رہے ہیں، گھروں پر بمباری اور راکٹ حملے کر رہے ہیں۔

رواں ہفتے کے اوائل میں افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے طالبان اور دیگر شدت پسند گروپوں کو 2020 کی پہلی سہ ماہی میں 150 بچوں سمیت 533 شہریوں کی ہلاکت میں سے 52 فیصد کا ذمے دار قرار دیا تھا۔

ذرائع کے مطابق افغانستان کی مختلف جیلوں میں اس وقت 12 سے 15ہزار قیدی موجود ہیں۔

یاد رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ ہوا تھا جس میں طے پایا تھا کہ افغان حکومت طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرے گی جس کے بدلے میں طالبان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کریں گے۔

امریکا نے معاہدے کے تحت وعدہ کیا تھا کہ اگلے سال جولائی تک امریکی اور دیگر غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلا ہوگا جبکہ طالبان کی جانب سے سیکیورٹی کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here