فدائی سمعیہ قلندرانی | جیئند بلوچ

0
472

جون کی 24 تاریخ شام کے چار بجکر پانچ منٹ پر بی ایل اے کی مجید بریگیڈ کے پچیس سالہ سمعیہ عرف سمو بلوچ نے پاکستانی فوج کے ایک اہم ترین انٹیلی جنس وفدکے قافلے کو اس وقت نشانہ بناکر انہیں شدید نقصان پہنچایا جب اس روز پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے برائے راست ایک فلائٹ نے مقبوضہ بلوچستان کے اہم شھر تربت کے لیے پرواز بھری۔

معمول سے یہ فلائٹ کم و بیش 30 منٹ کی تاخیر سے تربت ایئرپورٹ پہنچی۔ اس فلائٹ میں قابض ریاست کی انٹیلی جنس ایم آئی کا ایک سینئر آفیسراپنے چند ایک دیگر افسران کے ہمراہ سوار تھا۔ انٹیلی جنس کایہ اہم وفد ایک خفیہ مشن پر آیا تھا۔ یہ بلاتاخیر پرواز سے اترے اورایئرپورٹ لاؤنج پر دو وی آئی پی کے ساتھ چار سیکیورٹی کی گاڑیاں کھڑی ان کے منتظر تھے۔

مذکورہ آفیسران ان گاڑیوں میں سوار ہوئے اور ذہن سے اپنے خفیہ مشن پر مذید منصوبہ سازی کرتے ہوئے اگلے چند لمحوں کی تاریک دنیا سے بے خبر چاکر اعظم چوک پرپہنچے ۔اس موڈ سے قافلے کو ملٹری انٹیلی جنس کے آفس جانا تھا۔ قافلے کی پہلی دو سییکورٹی کی گاڑیاں گزرگئیں پہلی وی آئی پی گاڑی بھی گزری، دوسرے کے گزرنے سے پہلے سڑک کے کنارے بنچ سے ایک نوعمر لڑکی اچانک اٹھی اور چیتے کی مانند گاڑی پر چھلانگ لگادی۔ اس کے ساتھ ایک دھماکا ہوا اور اس گاڑی کے پرخچے اڑگئے۔

دھماکے کے ساتھ آگ کے شعلے بلند ہوئے ۔گاڑی جل کر تباہ ہوگئی۔ یہ سب کچھ آناً فاناً پلک جھپکتے ہی ہوگیاجو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔دھماکے کے فوراً بعد دشمن فورسزنے اس جگہے کو سیل کردیا ۔ پانی سے بھرے ٹینکی لائے گئے اور چند منٹوں میں اس جگہ کو پورا دھوکر صاف کیا گیا۔ تباہ شدہ گاڑی جلی لاشوں کے ساتھ ہٹادی گئی۔ قریب دکانوں اور پارک کے کیمرے فوری اتار دیئے گئے ۔غرض تباہی کی معمولی نشانی تک نہیں چھوڑی گئی مگر جو کچھ ہوا تھا جلی سڑک ،پانی اور بھی کئی نشانیاں پل بھر پڑنے والی آفت کا نظارہ دکھانے میں موجود تھیں۔

یہ نوعمر لڑکی پچھلے چالیس منٹوں سے یہیں بیٹھی تپتی دھوپ کڑی گرمی جھلسا دینے والی لو میں اپنے ٹارگٹ کا انتظار کررہی تھی۔اس کے قریب کئی لوگ گزرے، مختلف خیال ازہان پر آئے ،کسی نے اسے ایک بری لڑکی سمجھ کر اپنے محبوب کا منتظر سمجھا توکسی نے تپتی گرمی میں اسے پاگل جانا۔ چند ایک نے آگے بڑھ کر اسے ساتھ لیجانے کی پیشکش کی لڑکی مگر اپنی دنیا میں مگن ساری توجہ اپنے ٹارگٹ لگائے وقت ٹالتی رہی۔یہ کوئی معمولی لڑکی نہیں تھی ایک فدائی مشن کار ایسی بہادر لڑکی جس نے اپنی محبوب زمین کوچنا اور اب اپنی اس محبوب کے لیے خود کو فنا کرکے ابدی بقا کے لیے چالیس منٹ سے بیٹھی شہوت انگیز نگاہیں، برے ازہان، بلا کی گرمی، وقت کا جبر اور سب سے بڑھ کر ٹارگٹ کی تاخیر جو اس کے ظاہری وجود کو فنا کرنے کا باعث بننے والی تھی ۔ان سب کا حساب رکھ کر من ہلکا کررہی تھی۔اس نے ٹارگٹ پائی اور قابض ریاست کو ایک کاری ضرب لگائی۔

بی ایل اے کی فدائی سمعیہ قلندرانی عرف سمو بلوچ منگل کی شام تربت میں دشتی بازار کے مقامی قبرستان میں گلزمین کے سپرد کردیئے گئے۔ بی ایل اے کی مجید بریگیڈ کے فدائی سمعیہ قلندرانی عرف سمو بلوچ نے رواں ہفتے سنیچر کی شام چار بجے چاکر اعظم چوک تربت میں قابض غیر ملکی فوج کے ایک اہم قافلے کو نشانہ بناکر سزمین پر اپنی جان نچھاور کردی تھی۔

تُربَت سے پولیس کے سنیئر حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بی ایل اے کی فدائی کا نشانہ ملٹری انٹیلی جنس کا ایک انتہائی اہم آفیسر تھا جسے ممکنہ طور پر بلوچستان کا سیکٹر کمانڈر بھی خیال کیا جارہا ہے تاہم پولیس حکام کے مطابق وہ اس ہائی پروفائل ٹارگٹ کے عہدہدار سے لاعلم ہیں۔

پولیس کے ایک اعلی آفیسر کے مطابق فدائی سمو نے ٹارگٹ کو صحیح نشانہ بنایا مگر عین اسی وقت جب دو پرائیوٹ اور چھ سیکیورٹی گاڑیوں کا قافلہ ٹارگٹ کے قریب گزرا۔ دوسری جانب پبلک لائبریری سے لڑکیوں کو لے جانے والی ایک سوزوکی گاڑی گزری جس کے سبب فدائی سمو پہلی صف کے گاڑی کو ٹارگٹ بناتے بناتے پبلک گاڑی بچانے کی کوشش میں رک گئی تاہم دوسری گاڑی کے قریب آتے ہی اسے نشانہ بنایا جس میں ہائی لیول ٹارگٹ سوار تھا جبکہ پہلی صف میں اس کے بیوی اور بچے سوار تھے۔

پولیس اندازہ لگارہی ہے کہ دھماکے میں انتہائی اہم نوعیت کا نقصان ہوا ہے کیوں کہ ایف سی اور خفیہ اداروں نے دھماکے کے فوراً بعد پورے ایریا کا گھیراؤ کیا اور چند منٹوں کے اندر اندر اس ایریا کو مکمل دھوکر صاف کیا۔ گمان یہ ہے کہ ھماکے میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ریکارڈ ہوئی ہیں جنہیں چھپانے کی کوشش میں غلطی سے آشکار کردیا گیا۔

چاکر اعظم چوک کے جس مقام پر فدائی سمو نے ٹہھر کر ٹارگٹ کا انتظار کیا وہاں عام لوگوں کی دلچسپی اور لگاؤ عجیب منظر بْیان کررہی ہے۔ تُربَت سے ایک عام شھری کے مطابق چار دن بعد بھی نوجْوان اور خواتین چاکر اعظم چوک پر آکر یا وہاں سے گزّرتے ہوئے اس بنچ کو سلوٹ مارتے ہیں جہاں فدائی سمو ٹارگٹ کے انتظار میں بیٹھی تھی جبکہ ایک گھریلو خاتون کے مطابق عورتوں کی بڑی تعداد یہاں آکر پھول نچھاور کرنا چاہتی ہیں مگر ایک خوف اور ڈر کی فضا میں ایسا کرنا جانا مشکل ہے حالانکہ موٹرسائیکل اور گاڑی سوار افراد خصوصاً کئی لا تعداد نوجون ایسے دیکھے گئے جنہوں نے یہاں گزرتے ہوئے ہاتھ ماتھے پر رکھ کر سلوٹ کیا۔

دوسری طرف فدائی سمو کی شہادت پر بلوچ تحریک کے ہمدرد حلقوں میں ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کچھ حلقوں کا یہ خیال ہے کہ فدائی خواتین کی ضرورت انتہائی حساس نوعیت کے مقامات یا خصوصاً فورسز کے اجلاس وغیرہ میں کیا جانا ضروری ہے ۔بعض حلقے گمان کرتے ہیں کہ مجید بریگیڈ کے پاس شاید تربیت یافتہ خواتین کی تعداد زیادہ ہے یا جنگی حکمت عملی اور مقامات سے واقفیت کی کمی جب عام حالت میں انتہائی اہم نوعیت کے حملے کیئے جاتے ہیں۔

ایک سنیئر سْیاسی رہنما سے جب پوچھا گیا کہ سمو کی فدائی کارروائی کو کس تناظر میں دیکھا جائے تو ان کا خیال بھی خودکش حملوں کے لیے زیادہ سے زیادہ حکمت عملی اپنانے کا تھا تاہم جب انہیں پولیس کے حوالے سے یہ بتایا گیا کہ فدائی سمو کا ٹارگٹ ایف سی کا ایک عام قافلہ نہیں بلکہ ایک ہائی ویلیو انٹیلی جنس آفیسر تھا تب وہ اس پر قائل ہوا کہ ان جیسے حالات میں فدائی حملوں کی گنجائش رکھی جاسکتی ہے۔

ایک سْیاسی مبصر کے مطابق جو لوگ اس فدائی حملے پر اختلافی نقطہ نگاہ رکھ رہے ہیں دراصل انہیں اصل ٹارگٹ کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہے۔ جن لوگوں کو معلوم ہے کہ فدائی مشن کا اصل ٹارگٹ کیا تھا وہ اس پہ قائل ہیں۔تاہم جب منگل کی شام فدائی سمو کے جنازہ کی ادائیگی کا اعلان کیا گیا عام نوجْوان طبقہ کے علاوہ تُربَت میں موجود برائے قوم پرست جماعتوں کی ضلعی قیادت سے عام کارکنان تک نظر نہیں آئے ۔جماعت اسلامی اور جے یو آئی جیسی کٹر مذہبی جماعتوں کے کارکنان جنازہ میں دیکھے گئے لیکن پارلیمنٹ پرست برائے نام قوم دوست نیشنل پارٹی، بی این پی مینگل یا بی این پی عوامی کے کارکنان کمپنی کی ناراضگی کے خوف سے جنازہ میں نہیں آئے۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here