سرمچار | ظہیر بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
13 Min Read

افسانہ رنگ

راشد پہاڑوں میں ہی پلا بڑھا۔ بلند و بالا پہاڑ ہی اس کا مکسن تھے۔ پہاڑ ہی اس کا مورچہ اور اسکی زندگی تھے , ان پہاڑوں کے نیلےچشمے،چرند پرند ،جانور ،درخت، باغات اور چرواہے اسکی آواز پہنچاتے تھے اور ان جانداروں کی خوشبو راشد کی سانسوں میں رچی بسی تھے۔

ایک وقت تھا کہ وہ پہاڑوں میں بسنے والے انسانوں اور ان پہاڑوں سے دور آبادی سے مکمل واقف تھا ، جس پہاڑی علاقے میں راشد رہتا تھا وہ چٹیل پہاڑوں،خوبصورت میدانوں پر مشتمل تھا۔

ایک دن اسی پہاڑی علاقوں میں گھومتے ہوئے اسکی نظر کچھ مشتبہ افراد پر پڑی جو  حلیے، شکل و صور اور عمل سے چور معلوم ہوتے تھے جو بندوق ، بموں اور جنگی ساز و سامان سے لیس تھے اور ان کے کپڑے اور جوتے پھٹے ہوئے تھے ،جگہ جگہ پیوند کے نشان تھے۔راشد نے ایسے لوگ پہلے کبھی اس علاقے میں نہیں دیکھے تھے کیونکہ وہ ایک چرواہا کا بیٹا تھا اور ابا کی طبعیت خراب ہونے کی وجہ سے آج پہلی بار اپنے ریوڑ کے ساتھ آیا تھا جب راشد کی نظر ان لوگوں پر پڑی تو اسکے چہرے پر خوف اور جستجو کے تاثرات نظر آنے لگے ڈر اس بات کا اگر وہ واقعی چور ہے تو لازم اسکی بکریوں کو چھین لیں گے اور اگر چور نہیں تو کیوں نہ ان سے مل کر پوچھوں کہ تم لوگ کون ہو اور یہاں کیا کررہے ہو؟

راشد ان لوگوں کے عمل کو دیکھ کر بہت پریشان ہوا کہ میں ایک نہتا بچہ اور سامنے چار پانچ بندوق بردار لوگ مجھے دیکھ کر چھپ کیوں رہے ہیں؟ لیکن جب ان بندوق بردار لوگوں نے دیکھا کہ راشد انہیں دیکھ چکا ہے تو انہوں نے راشد کو اپنے پاس بلایا۔ سلام دعا کی , حال احوال پوچھا لیکن راشد کسی سوچ میں گم ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا کہ شکل و صورت سے چور معلوم ہونے والے ان لوگوں کے خیالات ،انسان دوستی اور کردار بلند معلوم ہوتا ہے۔وہ اس سوچ میں پڑگیا کہ چور اور ڈاکو خطرناک لوگ ہوتے ہیں وہ لوگوں کے املاک کو چوری کرتے ہیں اور انسانوں کو مار دیتے ہیں لیکن یہ چور ان چوروں سے مختلف کیوں ہیں۔

ان پانچ لوگوں میں سے ایک لڑکے کو راشد جانتا تھا اور ایسے معلوم ہوتا تھا کہ یہی لڑکا جس کا نام مراد تھا یہی ان کا سربراہ ہے اس نے راشد سے کہا کہ تم نے ہمیں دیکھ تو لیا ہے لیکن یہ بات کسی سے مت کہنا اور آئندہ کوشش کرنا کہ اپنی بھیڑ اور بکریوں کو پہاڑوں میں لانے کے بجائے آبادی کے نزدیک ہی لے جانا اور ان پہاڑوں میں مت آنا , ان لوگوں نے راشد کو کھانے کی چیزیں بھی فراہم کی اور وہاں سے چلے گئے , جب وہ لوگ چلے گئے تو راشد سستانے کے لئے کسی سایہ دار درخت کے نیچے لیٹ گیا اور سوچ میں غرق ہوگیا کہ کیا واقعی یہ چور تھے؟اگر چور تھے تو ان کے سینوں میں انسانیت کے لئے درد کیوں موجود ہے؟ انہوں نے میری بھیڑ بکریاں لے جانے کے بجائے مجھے کیوں کھانے کا سامان فراہم کیا؟۔

انہوں نے مجھ سے چوروں جیسا رویہ اپنانے کے بجائے ایک سوچ سے بھرپور انسان کی طرح کیوں سمجھایا؟راشد ایک ان پڑھ تھا ضرور لیکن اسکے والدین نے اسے بتایا تھا یا معاشرے کے لوگوں سے اس نے سنا تھا کہ چور کسی کے نہیں ہوتے بلکہ وہ صرف مارنا اور لوٹنا جانتے ہیں لیکن یہ کیسے چور ہیں جو سمجھاتے ہیں اور ضرورت مند کو ضرورت کی چیزیں فراہم کرتے ہیں اور ان کا خیال رکھتے ہیں۔اسی تجسس اور خیالات میں وہ بکریوں کو گھر لایا اور اس واقعہ کے متعلق کسی کو کچھ نہیں بتایا بس اپنے ابا کو کہا کہ کل پھر وہ بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ جائے گا۔ رات کو سونے کے وقت وہ انہی سوچوں میں پڑگیا اور پکا ارادہ کیا کہ وہ ان چوروں کے گروہوں کو جوائن کریں گا اور اپنی باقی ماندہ زندگی ان چوروں کے ساتھ ہی گزار لیں گا۔

صبح ہوئی وہ بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ اپنے متعلقہ جگہ پہنچا , بکریاں گھاس چرنے میں مگن ہوئے لیکن اسکی نظریں شاید کسی کا منتظر تھی وہ بکریوں کو چھوڑ کر پہاڑوں کے چوٹیوں اور نہروں میں گھومنے اور ان لوگوں کو دیکھنے لگا پورا دن گزر گیا لیکن اسے کچھ نہیں ملا وہ مایوس ہو کر بکریوں کو لیکر گھر آیا اور صبح ایک بار پھر ابا کے ساتھ بکریوں کو لیکر پہاڑوں میں آیا اور پھر اپنے سفر پر نکل گیا لیکن اسے کچھ نہیں ملا۔

پورا ہفتہ ایسے ہی گزر گیا ، راشد صبح جاتا ,شام کو گھر لوٹتا لیکن جس مقصد کے لئے جاتا وہ نامکمل ہی رہتا ، رات کو اس نے ارادہ کیا کہ کل وہ ایک بار ضرور ابا کے ساتھ جائے گا اور پورے پہاڑوں کو دیکھ لے گا اور جو بھی ہوں ان لوگوں کو ضرور ڈھونڈ لیں گا ، صبح ہوئی وہ ابا کے ساتھ اپنے سفر پر نکلا ، مئی کے گرم دن۔ پہاڑی علاقہ اور سورج کی تپش کسی مضبوط سے مضبوط انسان کو بھی توڑ دیتا ہے لیکن یہ اٹھارہ سالہ نوجوان سورج اور گرمی کو مات دیتے ہوئے بڑی مشکل سے ان لوگوں کے روبرو ہوگیا۔

جیسے ہی ملاقات ہوئی مراد نے اسے غصے سے کہا کہ ہم نے تمہیں کہا تھا کہ یہاں نظر مت آنا پھر بھی تم یہاں کیوں آئے ہو شاید تم ہماری بات کو سمجھے نہیں؟ اب تم سزا کے لئے تیار ہوجاو کیونکہ تم نے ہماری بات نہیں مانی تو راشد نے ڈرتے ہوئے بڑی مشکل سے ان لوگوں کو اس ملاقات کے بعد کی داستان , اپنی پریشانی کے متعلق بتایا اور ڈرتے ڈرتے سوال پوچھا کہ تم لوگ چور ہو اور کیا چوری کرتے ہو؟ اگر تم چورہو تو تمہارا اخلاق اور کردار اتنا بلند کیوں ہے؟

مراد اس کے سوالوں کو سن کر ہنس دیا اور کہا کہ تم کیوں یہ پوچھ رہے ہو ؟تم جائو ،تم ابھی بچے ہو تمہیں کچھ سمجھ نہیں آئے گا لیکن راشد ڈٹا رہا کہ وہ ان کے جواب دیں کیونکہ میں بھی ایک بلند کردار اور بلند عمل کا مالک بننا چاہتا ہو اگر آپ نے مجھے اپنے گروہوں کو جوائن کرنے کا موقعہ دیا تو میں پوری ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دوں گا بس مجھے سوالوں کے جواب دو تو مراد نے کہا ٹھیک ہے میں تمہارے سوالوں کے جواب تمہیں دو گا ۔

مراد نے اس سے کہا کہ ہم چور نہیں ہے بلکہ ایک چالاک اور انسانیت سے عاری دشمن سے ایسی جنگ لڑرہے ہیں جو لوگوں کو ناحق قتل کرتے ہیں ۔ہماری تاریخ اور ثقافت کو مسخ کرکے ہم پر اپنی تاریخ اور ثقافت مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ معصوم اور بے گناہ انسانوں کے گھر میں گھس کر انہیں مارتے ہیں اور ان کے بچوں کو لاپتہ کرتے ہیں ان کے املاک کو چوری کرتے ہیں۔ ہم بس ان رہزنوں ،قاتلوں اور ان کے بے ضمیر ساتھیوں سے جنگ کررہے ہیں جنہوں نے ہماری زمین،ہماری تاریخ ،ہماری ثقافت کو چوری کیا اور ہماری مائوں اور بہنوں کو مار پیٹ کر ہمارے بھائیوں کو لاپتہ کرکے زندانوں میں شہید کردیا ۔

مراد نے جیسے ہی لب بند کئے تو جھٹ سے راشد نے پوچھا پھر تم لوگ مجھے دیکھ کر کیوں چھپ گئے؟ تو مراد نے کہا کہ ان رہزنوں اور قاتلوں نے ہماری زمین پر کچھ ایسے بے ضمیر لوگوں کو کرائے پر رکھا ہوا ہے جو ہماری راستوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان رہزنوں کی وفاداری کا بھرم رکھ کر اپنے ہی بھائیوں پر جیٹ طیاروں، ہیلی کاپٹروں اور ڈرون سے حملہ کرواتے ہیں اور رہزنوں کی وفاداری کرتے ہیں اس لئے ہم چھپ جاتے ہیں کہ وہ ہمیں نہ دیکھیں تو راشد نے کہا کہ مجھے بھی اپنے تنظیم میں شامل کردوں میں بھی اس زمین کا باسی ہو اور ان بے ضمیروں سے مختلف ہو لیکن مراد نہیں مانا ۔

راشد نے بہت منٹ سماجت کی کہ وہ ایسا بے ضمیر نہیں بلکہ وہ زمین کا فرزند ہے اور ان پہاڑوں کے چھپے چھپے سے واقف ہے۔ بہت منت سماجت کے بعد مراد راضی ہوا اور اسے کچھ علاقائی ذمہ داریاں دی جنہیں راشد نے بخوبی پورا کیا۔ایک دن قاتلوں اور رہزنوں کے گروہ نے راشد کے گھر چھاپہ مارا مار پیٹ کی اور راشد کے متعلق پوچھا لیکن خوش قسمتی سے راشد گھر پر نہیں تھا اور وہ راشد کے چاچا کو اٹھا کر لے گئے ,دوسرے دن وہ رہزن پھر آئے لیکن راشد انہیں نہیں ملا تو انہوں نے تیسرے دن راشد کے چاچا کو قتل کرکے لاش پہاڑوں میں پھینک دی جسکی لاش پہاڑوں میں راشد کے ابا اور چھوٹے بھائی کو ملی ۔

راشد اب فیصلہ کرچکا تھا کہ وہ قاتلوں اور رہزنوں کا مقابلہ ان پہاڑوں کو مورچہ بنا کر لڑیگا اس لئے وہ پہاڑوں میں مراد اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل گیا اور ان رہزنوں کے ٹھکانوں پر بم کی طرح برس پڑا، اب راشد اور اسکے خاندان کے گھروں پر روز چھاپے پڑتے ,روز مار پیٹ ہوتی لیکن راشد کبھی واپس نہیں پلٹا بلکہ یہ جنگ راشد کی زندگی کا حصہ بن چکی تھی جہاں واپسی صرف کفن میں ہوتی ہے۔

چھ سال بیت گئے ,راشد کبھی واپس گھر نہیں گیا بس پہاڑوں میں دوستوں کے ساتھ ان رہزنوں کو للکارتا رہا۔ ایک دن حملے میں مراد اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوگیا اور اس تنظیم نے راشد کو اپنا نیا ذمہ دار چن لیا اب اسکی ذمہ داریاں بڑھ چکی تھی اور اس ذمہ داریوں نے اسے ایک مضبوط , کمٹمڈ اور مخلص انسان بنادیا تھا۔

ایک دن وہ تنظیم کے کام کے لئے علاقے کی طرف نکلا،تین دن کے سفر کے بعد اس نے اپنے چھوٹے بھائی اور ابا کو بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ دیکھا لیکن حالات اور تنظیم کے اصول و ضوابط کو مد نظر رکھ کر اس نے خود کو چھپا لیا اور ایک بار وہ سوچ میں گم ،آنکھوں میں آنسو لئے خود سے کہتا رہا کہ یہ کیسی زندگی ہے کہ اپنے ہی زمین پر اپنے ابا اور بھائی کے سامنے بھی چھپنا پڑتا ہے لیکن اس خیال نے اسکے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیلائی کہ آج وہ بھی ایک بلند کردار اور با عمل انسان بن چکا ہے جس کی زندگی کا مقصد ان رہزنوں اور قاتلوں سے اپنی زمین , اپنی تاریخ اور اپنی ثقافت چھین کر اپنے عوام کو تحفہ دینا ہے جس میں وہ ایک دن ضرور کامیاب ہوگا۔

٭٭٭

Share This Article
Leave a Comment