بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ بلوچستان میں جبر و استحصال کے بس رنگ بدلتے ہیں باقی جبر اسی طرح رنگ بدلتے جاری رہتا ہے۔ آواران میں ایک بلوچ ٹیچر نجمہ ولد دلسرد کی جبر سے تنگ آکر خود کشی کرنے کی ہم انتہائی سخت الفاظوں میں مذمت کرتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ نجمہ جو ایک پڑھی لکھی شریف استانی تھی اس کو ریاستی اداروں کی حمایت حاصل یافتہ ڈیتھ اسکواڈز کی صورت میں اتنا ذہنی تشدد کیا گیا کہ اس کو سوائے خودکشی کے اور کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ نجمہ ایک با ضمیر اور ایک شریف خاتون ٹیچر تھی ان کا قصور بس یہ ہے کہ انہوں نے ملٹری انٹیلی جنس کے لئے کام کرنے سے صاف انکار کردیا اور ان کے اس انکار کے عوض بدنام زمانہ ڈیتھ اسکواڈ نور بخش کی طرف سے ان کو مسلسل ہراساں کیا گیا اور ذہنی طور پر ان کو شدید تشدد کیا گیا جو کہ ایک نا قابل فراموش اور سنگین نا انصافی تھی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈیتھ اسکواڈ کے ساتھ سمجھوتہ نہ کرنے کے عوض ان کو مشتعل کردیا گیا۔ دھمکیوں، ذہنی تشدد اور اس طرح کے بہت سارے نفسیاتی ہتھکنڈے استعمال کرکے نجمہ دلسرد کو خود کشی کرنے پر مجبور کیا گیا جس کے سبب صرف اور صرف ریاستی ادارے اور اس کے باقی سنبھالے ہوئے ذیلی ادارے ہیں جو کہ مداری کے بندر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ہم اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت و اس بالا ادارے ذیلی ادارے کہنا مناسب نہیں ہے کیونکہ ہم اس بات کو واضع طور پر جانتے ہیں کہ حکومت بس ایک ڈمی کا کردار ادا کررہی ہے تو حکومت اور اس کے بالا ادارے ہوش کے ناخن لیں اور آئین و قانون کی بات کرنے والے خود اس کی پامالی سے بچیں۔ وگرنہ ہم احتجاجی مظاہرے و دھرنوں کا سیاسی حق رکھتے ہیں۔ بارہا ہوش کے ناخن لیا جائے۔