کوئٹہ میں بلوچ لاپتہ فراد کاا حتجاج جاری

0
135

بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم VBMP بھوک ہڑتالی کیمپ جاری ہے جسے 5005 دن ہوگئے۔

کیمپ میں وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ ، وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ سمیت بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین بیٹھے رہےجبکہ اظہارِ یکجہتی کرنے والوں میں بلوچ سیاسی رہنما مہیم خان بلوچ، بلوچ وطن نامی پارٹی کے ظفر بلوچ اور وکلاء برادران شامل تھے۔

اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ طاقت پر انحصار ریاستی پالیسی کا حصہ رہا ہے کہ بلوچ قوم نو آبادیاتی دور سیاست ثقافتی یلغار سے مغلوب ہونے کی بجائے اپنی متوازی سیاست اور ثقافت کے ساتھ زندہ رہی ہے، ریاستی جبر سے بلوچ قوم کے ہر طبقہ فکر کے لوگ متاثر رہے ہیں، بوڑھے بچے جوان وکیل ڈاکٹر انجینئر سب کے سب جبر کی چکی میں پس رہے ہیں، قومی سیاست و ثقافت کے مراکز ریاستی ادارے نہیں ہیں بلکہ بلوچ قوم کے دل و دماغ ہیں جن کا خاتمہ بلوچ قوم کے خاتمے سے ہی ممکن ہو سکتا ہے ۔

اس لئے ریاستی طاقت کے استعمال میں بلوچ نسل کشی کا رنگ غالب نظر آیا ۔ یہ سلسلہ ابھی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے۔ اس کا درست حل بین الاقوامی اور تاریخی حقائق کی روشنی میں کسی عالمی فورم کے ذریعے سے ہی ممکن ہے جس کے لئے اقوام متحدہ سمیت مختلف بین الاقوامی فورمز موجود ہیں لیکن بالا دست قوتوں کی یہ یقین ہے کہ ایسی صورت میں وہ اپنا تسلط قائم نہیں رکھ سکیں گی اور بلوچ قوم کا جدا گانہ تشخص بحال کرنا پڑیگا۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ابھی یہ کل ہی کی بات ہے جس کی گونج تاحال معدوم نہیں ہوئی ہے جب صوبائی حکومت طمطراق سے یہ دعویٰ کررہے تھے کہ وہ ایسے گھوڑے کی سواری نہیں کریں گے جس کی لگام اپنے ہاتھ میں نہ ہو۔ اب ان کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت تو ملی لیکن اختیارات نہیں ملے یعنی گھوڑے کی سواری ہے لیکن لگام گھوڑے کے مالکان کے پاس ہے۔ بلوچستان کے طول و عرض کے سانحہ کو دبانے اور اس کے ذمے داروں کی نشان دہی کے حوالے سے ابہام پھیلانے کی پوری کوشش کی ہے۔ جس کے سب سے زیادہ منفی اثرات سانحہ بلوچستان کے بلوچوں کے جبری اغوا اور دوران ریاستی حراست ان کے سفاکانہ قتل اور بلوچ حقوق کے مسائل کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کی کوششوں پر مرتب ہوئے۔

جس کا بالادست قوتیں اور ان کے حواری بھی بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بلوچ قوم اپنے قومی تشخص کی بحالی کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دیتے ہوئے جزبہ حریت کی نت نئی مثالیں قائم کر رہی ہیں اور بالا دست قوتوں کے سامنے سینہ سپہ ہیں تو نمائندہ بلوچ سیاسی قوتوں کے اپنے نظریے پر قائم رہتے ہوئے ایک متحدہ پلیٹ فارم کا احتمال ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here