میانمار کی فوجی حکومت نے اقتدار پر اپنی گرفت کو طول دینے کے لیے انتخابات کے لیے رجسٹریشن کرانے میں ناکامی کا جواز بناتے ہوئے سابق رہنما آنگ سان سوچی کی سابق حکمراں جماعت اور 39 دیگر جماعتوں کو تحلیل کر دیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی خبر کے مطابق اس بات کا اعلان سرکاری میڈیا نے کیاہے۔
نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) ان درجنوں پارلیمانی جماعتوں میں شامل ہے جو آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کے خلاف 2021 میں ہونے والی فوجی بغاوت اور اس کے خلاف ہونے والے مظاہروں پر کریک ڈاؤن کی وجہ سے پہلے ہی بہت کمزور ہو گئی تھیں۔
ملک میں انتخابات کے لیے کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا جو کہ میانمار میں بڑھتے بحران کے درمیان ہوں گے جہاں فوج نسلی اقلیتی عسکریت پسندوں کو کچلنے کے لیے متعدد محاذوں پر لڑ رہی ہے اور بغاوت مخالف اختلاف کو دبانے کے سخت اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لیے مزاحمتی تحریک تشکیل دی گئی ہے۔
منگل کے روز دیر گئے لائیو نشریات میں سرکاری میڈیا نے کہا کہ 63 پارٹیوں نے مقامی یا قومی سطح پر رجسٹریشن کرائی ہے، سرکاری میڈیا کے مطابق 40 پارٹیاں منگل کی آخری تاریخ تک سائن اپ کرنے میں ناکامی پر خود بخود تحلیل ہو گئیں۔
یونین سولیڈیریٹی اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (یو ایس ڈی پی) کی انتخابات میں کامیابی تقریباً یقینی ہے، یو ایس ڈی پی ایک ملٹری پراکسی جماعت ہے جسے 2015 کے انتخابات میں این ایل ڈی نے شکست دی تھی اور 2020 کے انتخابات میں جنہیں جرنیلوں نے بے قاعدگیوں کا الزام لگاتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا تھا۔
نوبل انعام یافتہ 77 سالہ آنگ سان سوچی کا شمار این ایل ڈی کے ان متعدد رہنماؤں میں ہوتا ہے جو بغاوت کے بعد سے جیل میں بند ہیں اور بدعنوانی، ریاستی رازوں کے قانون کی خلاف ورزی اور اشتعال انگیزی سمیت دیگر جرائم میں ملوث ہونے پر 33 سال کی سزا بھگت رہی ہیں۔
این ای ڈی کے سینئر عہدیدار نے کہا کہ پارٹی کے اپنے بہت سے ارکان کے جیل میں ہونے یا ”انقلاب میں شامل“ ہوتے ہوئے انتخابات کے لیے رجسٹریشن نہیں کرائے گی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہماری پارٹی تحلیل ہو گئی یا نہیں۔