اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ میانمار میں فوج کی جانب سے حکومت پر قبضے کو دو سال ہوگئے ہیں لیکن عوام ان کے خلاف ہیں اور ملک میں اپنے عوام سے جنگ کر رہے ہیں۔
خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے آفس نے میانمار میں فوجی حکومت کے دو سالہ اقتدار کا جائزہ لینے کے بعد رپورٹ میں کہا ہے کہ 2 ہزار 940 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے اور 30 فیصد حراست کے دوران مارے گئے۔
ہلاکتوں کی تعداد میں بارے میں بتایا گیا ہے کہ درست تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے آفس کی میانمار کے لیے مختص ٹیم کے سربراہ جیمز روڈیہور نے کہا کہ مسلح افواج اس وقت تقریباً 13 مختلف محاذوں پر لڑائی میں سرگرم ہے۔
جنیوا میں ایک بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ فوج تیزی سے کمزور ہوتی جا رہی ہے اور بری فوج کے لیے راستہ بنانے کی خاطر فضائیہ اور آرٹلری کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق میانمار کی فوج نے گزشتہ برس 300 سے زائد فضائی کارروائیاں کیں، جس میں اسکولوں اور ہسپتالوں میں خون ریز کارروائیاں بھی شامل ہیں۔
مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلح تصادم کی وجہ سے میانمار کے 330 علاقوں کا 80 فیصد حصہ متاثر ہوا ہے۔
جیمز روڈیہور نے کہا کہ میانمار میں بحران کی صورت حال مسلسل بڑھ رہی ہے اور پورے ملک میں مزید پھیل رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں نسلی طور پر تقسیم ریاستیں اس تنازع کے دوران مزید نظرانداز رہیں اور اب یہی صورت حال بامار جیسے علاقوں تک پہنچ رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فروری 2022 سے اب تک فوج کی جانب سے ملک بھر میں 39 ہزار گھر جلا دیے گئے ہیں یا تباہ کردیے گئے ہیں جو 2021 کے مقابلے میں ایک ہزار زیادہ ہے۔
مزید بتایا گیا ہے کہ فوجی حکومت کے دو سال میں 17 ہزار 572 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔