خان آف قلات میر سلیمان داؤد احمد زئی نی سانحہ بارکھان کے حوالے سے اپنے بھائی شہرادہ عمر کے جرگہ بلانے کے عمل پر پے اپنے خیالات کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ بلوچوں کی حقوق اور ریاستی اداروں کے ہاتھوں بلوچوں پے مظالم اور بلوچوں کی عزت نفس کی پامالی پے مسلسل خاموشی کے برعکس صرف بارکھان کے مسئلے پے جرگہ بلانا سمجھ سے بالاتر ہے۔
خان آف قلات نے کہا کہ بدقسمتی سے ریاست پاکستان اور ایران میں ریاستی سطح پہ بل واسطہ اور بلا واسطہ روز عام بلوچوں کا استحصال ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی پامالی بھی ہوتی ہے جس کی سرپرستی ریاستی ادارے اور ریاستی ادارے سے منسلک بڑھے چھوٹے چاپلوس روزانہ کی بنیاد پے کرتےہیں۔ماما قدیر بلوچ، نصراللہ بلوچ، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دوسرے بہن بیٹیاں، بیٹے، بھائی اور مولانا ہدایت الرحمن روزانہ کے بنیاد پر بلوچ عوام کے مسائل پر بات کرتے ہیں۔ میرے خیال میں اصل جرگہ یہہی لوگ کررہے ہیں جو کام سردار نواب زادے اور شہزادوں کو کرنا ہے آج وہی کام ہمارے بہن بھائی بیٹیاں اور عمر رسیدہ بلوچ کررہے ہیں۔
خان آف قلات نے بلوچ مسنگ پرسنز اور بلوچوں کی حوالے سے بلوچوں کی آواز بننے والے تمام افراد، قبائل اور ان کے سرداروں اور بلوچ معتبرین اور ہر بلوچ کی کوششوں کی تعریف کی۔
خان آق قلات نے کہا کہ عام بلوچ کی حقوق، جان مال، عزت کی حفاظت کرنا ہی سردار، نواب، نواب زادوں اور شہزادوں کی بنیادی اور اولین ترجیح ہانا چاہیے ۔
خان آف قلات میر سلیمان داؤد احمد زئی نے ماضی کے مسائل کا ذکرکرتےہوئے کہا کہ انھوں نے کچھی اور لانگو قبائل کے تنازعے میں تمام اختیارات وہاں کے سرداروں اور معتبرین کو سونپے تھے مگر کسی بھی سردار و نواب نے بلوچ روایات کی پاسداری نہیں کی اسی وجہ سے حال ہی میں چار معصوم لہڑی اور ایک جاموٹ کا قتل ہوا۔
خان آف قلات نے کہا کہ جاموٹوں کے مسائل پر میں نے نواب مگسی اور سراوان کے سرداروں سے مشاورت کی اور اس تنازے کو جلد از جلد حل کرنے کو کہا مگر چونکہ جاموٹ قبائل نے فیصلے کا اختیار نواب اسلم رئیسانی کو دیا تھا مگر انھوں نے اس مسئلے پر کوئی پیش رفت نہیں کی۔
خان آف قلات نے کہا کہ حامد زئی خاندان نے لانگو قبائل کے مسئلے میں منصف نواب ذوالفقار مگسی کو رکھا تھا مگر اس کے منصف ہونے پر نواب رئیسانی نے اعتراض کیا اب یہ نواب اسلم رئیسانی اور سروان کے سرداروں پر واجب ہے کہ وہ اس اعتراض کی وضاحت بلوچ قوم کے سامنے رکھیں۔
خان آف قلات نے مزید کہا کہ نواب اسلم رئیسانی اپنے آپ کو خان ثانی کہہ رہے ہیں جو وہ بالکل نہیں ہیں اور میرے نظر میں وہ سرے عام میرے اور میرے قوم کی عزت اور روایات کو مجروح کر کے نقصان پہنچارہے ہیں۔
خان آف قلات نے آخر میں کہا کہ تمام حالت واقعات کے پیش نظر میں اپنے چچا پرنس یحییٰ جان احمد زئی کی سربراہی میں اپنے بیٹے، بھائی اور خاندان کے تمام سفید ریش لوگوں کو یہ اختیار دیتا ہوں کہ وہ جرگہ بلائیں اور سارے قبائل کے سرداروں اور بلوچ معتبرین کو شرکت کی دعوت دیں اور تمام مسائل کو ان کے سامنے رکھیں اور ان تمام مسائل کا جامع حل عام و خاص کی مشاورت سے تلاش کریں جس میں اولین ترجیح بلوچ قوم کی عزت، مال جان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ قبائلی تنازعات کے حل بھی شامل ہو۔