بلوچستان ، ریاستی اور مزاحمتی تاریخ | ڈاکٹر جلال بلوچ

0
511

بلوچستان۔ ریاستی اور مزاحمتی تاریخ ڈاکٹر جلال بلوچ کی مرتب کی گئی ایک تحقیقی کتاب ہے جسے سنگر کے قارئین کی دلچسپی و معلومات کے پیش نظر قسط وار ماہنامہ سنگرمیں شائع کیا جارہا ہے۔ ادارہ

( پہلی قسط )

تشکیلِ ریاست سے عہد ِ غلامی تک

تاریخ کے اہم ترین موضوعات میں سیاست کو کلیدی حیثیت حاصل ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ سیاست کے بنا تہذیب کا تصور ممکن نہیں اور اگر تہذیب نہیں تو تاریخ نہیں۔
کسی قوم کی قدیم سیاسی تاریخ جانچنے اور پرکھنے کے لیے اس دور کی تحریروں جن میں سیاحوں کے سفرنامے، شاعروں کا کلام، اور دیگرموضوعات شامل ہیں پہ کتب معاملے کو سلجھانے میں کارآمدثابت ہوتے ہیں۔ البتہ قبل از تاریخ کے سیاسی نظام کو جانچنے کے لیے آثار قدیمہ کے علم پہ دسترس یا اس علم کے ماہرین کی تحقیقی کام سے مستفید ہوا جاسکتا ہے۔یہ ایک وسیع و عریض موضوع ہے، ہمارا موضوع بلوچ ریاستی و سیاسی منظر نامہ ہوگا جس کا تاریخی جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
انسان نے شعوری زندگی کے آغاز سے ہی کچھ اصول و ضوابط طے کرکے اپنی زندگی کو اسی سانچے میں ڈالنے کی سعی کی۔ پہلے خاندان پھر قبیلہ، سب اسی سمت تدریجی ارتقاء کے مراحل تھے جس نے آگے چل کر ریاست اور حکومت کی شکل اختیار کرلی۔
انسان جوں جوں ارتقاء کی منزلیں طے کرتا گیااس کی زندگی کے رموزمیں تبدیلیاں واقع ہوتی گئیں اورروزمرہ کی ضروریات بڑھتی گئیں جس سے وہ اپنے وسائل اور ان کی حفاظت کی تدابیر سوچنے لگا، بالآخر انسان انہی تدابیر کو عملی جامہ پہنانے کی جانب رواں ہوا۔ گروہی زندگی کی جانب قدم رکھتے ہوئے انسان کو فطرت نے اجتماعی زندگی گزارنے کا جو موقع دیااس میں اس نے اجتماعی تحفظ اور اس کے انتظامات کا شعور بھی اس کے ذہن میں اجاگر کیا۔اجتماعی رہن سہن اور انتظامی شعور نے انسان کو سماج کے ہر انتظامی معاملے میں پیشرفت کرنے کا حوصلہ عطا کیا اس سے انسان اپنے تحفظ کو یقینی بنانے اور وسائل کو بروئے کار لانے کی کوششوں میں لگا رہا جس سے انسان خاندانی یا پہلی سماجی زندگی سے نکل کرسماجی زندگی کی دوسری سیڑھی یعنی قبیلوں کی شکل میں مہذب زندگی کا آغاز کیا۔جسے پہلی مہذب گروہی زندگی یا سیاسی زندگی کا آغاز کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا۔ 1
لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی سیاسی زندگی کا آغاز قبائلی زندگی میں قدم رکھنے سے شروع ہوا جہاں حضرتِ انسان نے اپنی ریاست قائم کیا جس نے رفتہ رفتہ سلطنت کی شکل اختیار کی۔
بلوچستان میں اب تک کی جو دریافتیں سامنے آئی ہیں ان کی رو سے ہم کہہ سکتے ہیں یہاں سیاسی زندگی کا آغاز11000ہزار سال قبل ہوا تھا، جہاں مہرگڑھ کے مقام پہ پہلی بلوچ ریاست کی بنیاد رکھی گئی۔ مہر گڑھ جو ترقی کا مینار تھا اس نے آہستہ وسعت اختیار کی جس نے آگے چل کر کوئٹہ، رخشان، کولی، آمری، تہذیب کی بنیاد رکھنے کے ساتھ ساتھ سندھ و ہند تک کو تہذیب سے آشنا کیا۔اس کی یہ وسعت کسی نظام یا نظریے یا نظام کے تحت ہی ہوا ہوگا۔ویسے بھی اس زمانے کے ظروف وغیرہ جو دریافت ہوئے ہیں ان میں سلیقہ دیکھ کر بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے دور کے ترقی یافتہ معاشرے تھے اور ان کی زندگی اصول و ضوابط کے تحت گزررہی تھی۔
یہاں کا معاشرہ ایک کثیر المشاغل اور کثیر المقاصد زرعی معاشرہ بن گیا۔ تہذیبی ترقی کے اس بلند معیار کی عکاسی ظروفِ گِلی کے مختلف نمونوں کی بناوٹ، ساخت اور الوب نقاشی سے ہوتی ہے۔ جن میں قدیم زمانہ کے لوگوں نے اس کے مختلف مرحلوں میں اپنی فنکارانہ صلاحیت کا مظاہرہ کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ ہمہ ترقی جو زندگی کے مختلف شعبوں پر حاوی رہتی تھی۔ لاقانونیت کی فضا میں پروان نہیں چڑھ سکتی تھی۔ ان آثار و شواہد کی روشنی میں تسلیم کرنا پڑے گا کہ بلوچستان میں زمانہ ما قبل تاریخ کے دوران ابتداء ہی سے کوئی نہ کوئی نظام حکومت قائم ہوگیا تھا۔ 2
انسان کی بڑھتی ہوئی آبادی نے اس کی ضرورتوں میں اضافہ کیا لہذا ریاست وسعت اختیار کرتا گیا اور جب ریاست وسیع ہو تو اس کی حفاظت اور وہاں انتظامی معاملات کو سنبھالنے کے لیے اداروں کا قیام ناگزیر ہوتا ہے۔ اس ضمن میں انسان نے ان کے انتظام کے لیے حکمت عملی بنائی جن میں ان کا دیگر گروہوں سے حفاظت اور قدرتی آفات سے بچاؤ کی تدبیریں وغیرہ شامل تھیں۔ اس ضمن میں اپنی صلاحیتوں کو برؤے کار لاتے ہوئے اپنے وسائل کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ افرادی قوت میں بھی اضافہ کیا،کیونکہ وہ اس بات سے آشنا تھے کہ بہتر سے بہتر سہولیات، خاص طور پر خوراک اور پانی کا حصول اور ان کی حفاظت سماجی گروہوں کے لیے اہمیت کے باعث ہیں اور اگر وہ اس ضمن میں ذرا سی بھی غفلت برتیں گے تو دوسری قوت جو ان وسائل کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی ہے ہڑپ کر جائے گی۔ وسائل اور قوت میں اضافہ کے باعث رفتہ رفتہ ان گروہوں کے درمیان اختلافات اور لڑائی جھگڑے ہوتے رہے۔ قدیم انسانی آثاردیکھ کر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بعض اوقات ان کے درمیاں خونخوار جنگیں بھی ہوئیں، ا ن واقعات کے رونما ہونے سے اگرچہ بعض گروہ صفحہ ہستی سے مٹ گئے لیکن انہی واقعات نے سیاسی اتحاد کے نظریے کی بھی تشکیل کی جس کے بعد متحدہ محاذ بنتے گئے جس نے آگے چل کر سلطنت کی شکل اختیار کی۔
بلوچستان میں یہ سلطنت شاید پیشدادیوں کی تھی جنہوں 2100قبل مسیح میں قائم کی۔ جیسے ذکر ہوچکا ہے کہ ہزاروں سال قبل بلوچستان میں مہرگڑھ کے مقام پہ ریاستی نظام قائم ہوچکا تھا۔ بلوچ پیشدادی سلطنت کا حصہ کیسے بنے اس ضمن میں تاریخ خاموش ہے البتہ وہ اس نظام میں مضبوط حیثیت کے مالک ضرور تھے جس کی شہادت آرین حملوں کے خلاف ان کی صدیوں کی مزاحمت ہے۔ البتہ یہ بھی ممکن ہے کہ بلوچ پیشدادیوں کے اتحادی ہوں اور ہیرکانیہ، ایلان و گیلان سمیت شمالی و وسطی بلوچستان میں ان کی حکومت قائم ہو، کیوں کہ آرین حملہ آوروں کو ہیرکانیہ کے دھانے پہ صدیوں تک روکنے والے وہاں کے مقامی ہیرکانی قبائل ہی تھے، ازبعد آرین آگے بڑھتے گئے لیکن مزاحمت کا سلسلہ بھی بدستور جاری رہا جس نے سیستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، سیستان کے حوالے سے تاریخ یہ کہتی ہے کہ اس زمانے میں سیستان پر ناہروئی بلوچوں کی سیادت قائم تھی۔3
ازاں بعد جب آرین حکمرانی قائم ہوتی ہے تو بلوچ اسی حکومت کا حصہ بنتے ہیں جس کا تذکرہ فردوسی کی شاعری میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے جہاں انہوں نے ایلان وگیلان، کرمان، سیستان، مکران، تا راہ ِ ہند تک انہیں سکونت پذیر ظاہر کرتا ہے۔ممکن ہے کہ اس زمانے میں بھی ان کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں وجود رکھتی ہوں۔
ماد یا(آرین) حکمرانی کے بعد ہخامشنی برسرِ اقتدار آتے ہیں جو دیگر خطوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کوبھی فتح کرلیتے ہیں۔ جب بھی کوئی مضبوط ریاست زوال پذیر ہوجائے تو اس کے بعد وہاں آباد اقوام اپنی آزادی کا اعلان کرتے ہیں ممکن ہے کہ ماد حکمرانی کے زوال کے بعد بلوچستان کے بھی مختلف علاقوں میں آزادی ریاستیں وجود میں آئی ہوں جس طرح یونانیوں کے خلاف 454قبل مسیح میں ہخامشیوں کی جنگوں میں ہیروڈوٹس نے بعض بلوچ قبائل کا تذکرہ بھی کیا جن کے الگ الگ لشکر تھے اور بسا اوقات چند ایک بلوچ قبائل کو ایک رہنما کے ماتحت بھی ظاہر کرتا ہے اوربابائے تاریخ ہیروڈوٹس ایک جگہ یہ نشاندہی بھی کرتا ہے اکثر بلوچ قبائل کی جنگی ترتیب یکسا ں تھی جو اس جانب دلیل ہے کہ ان میں اتحادبھی تھا یاکوئی کنفیڈریشن سسٹم قائم تھا جس نے کہیں انہیں ایک رہنما کے ماتحت یکجا کیا اور کہیں ان کی جنگی یکسوئی کودوام بخشی۔ البتہ اس زمانے میں ان کی علیحدہ ریاست یا حکومت کے حوالے تاریخ خاموش ہے۔
ہخامنشیوں کے زوال کے بعد بھی ایک عرصے تک ان کی الگ ریاست یا ریاستوں کے نظام کے حوالے سے بھی کوئی تاریخی تذکرہ نہیں ملتا حتیٰ کے اس دوران بلوچستان خصوصاً مکران میں یونانیوں کے خلاف شیدیدمزاحمت بھی ہوئی۔ سکندر کے بعد جب یونانی سلطنت تقسیم ہوگئی تو ہمارے خطے پہ یونانی حکمران سلوکس نے اپنی حکومت قائم کی۔ لیکن چند دہائیوں کے بعد سلوکیوں کو آسکانیوں (پارتھین) کے ہاتھوں شکست ہوگئی۔ اس عظیم بلوچ ریاستی تاریخ کے حوالے سے تاریخی یہ بتاتی ہے کہ آسکانیوں نے سلوکیوں (یونانی)کو247 قبل مسیح میں شکست دیکر اپنی سلطنت قائم کی۔ ایک بحث اب بھی چلا آ رہا ہے کہ آیا آسکانی بلوچ تھے یا ایرانی؟ اگر ہم دریافت ہونے والے آثار جن میں ان کا لباس بڑی اہمیت کا حامل ہے،کا جائزہ لیں تو وہ موجودہ دور کے بلوچی لباس کی شبیہ ہے اس کے علاوہ ان حاکمین کے نام جن میں بالاچ نامی پانچ حکمران گزرے ہیں، اور سب سے بڑھ کر آج بھی بلوچوں کا یہ قبیلہ اسی نام سے وجود رکھتا ہے۔لہذا یہ تمام شواہداس بات کی دلیل ہیں کہ آسکانی ریاست کے حاکمین بلوچ ہی تھے۔
آسکانی اپنی قائم کردہ حکومت سے دوسو سال قبل بھی ایک طاقتور لشکر کے مالک تھے جن کا ذکر بابائے تاریخ ہیروڈوٹس نے بھی اپنے سفرنامے میں کیاہے۔ یونانیوں کی طاقت سکندر کے مرنے کے بعد ہی منقسم ہوگئی تھی اور اس کی سلطنت چار حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ بلوچستان اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں کی حکمرانی سلوکس کے حصے میں آئی۔ ابھی یونانیوں نے صحیح معنوں میں اپنے قدم بھی نہیں جماپائے تھے کہ انہیں یہاں کے مقامی باشندوں یعنی آسکانیوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر انہیں یہاں سے رختِ سفرباندھنا پڑا۔ بلوچ تاریخ میں یہ چارسو اکہتر(471)سالہ طویل حکمرانی کا دور تھا، جس میں بلوچستان کے علاوہ سینٹرل ایشیائی ریاستیں، ترکی، افغانستان ، عراق، شام اور ایران اس سلطنت کا حصے تھے۔
ان کی طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ 58قبل مسیح تک یہ لوگ کافی اقتدار کے مالک بن چکے تھے۔ ان کی آبادیاں کاکیشیا سے روس، ترکستان اوروادی البلوص سے کوہ البرز تک پھیل چکی تھیں۔ ان کا اپناجھنڈا اور لشکر تھا۔بڑے بڑے سلاطین ضرورت کے وقت ان سے مدد لیتے تھے۔4
471سال بعد226ء میں آسکانیوں کو ساسانیوں کے ہاتھوں شکست ہوگئی اور یوں بلوچوں کی یہ طویل حکمرانی زوال پذیر ہوا۔ ساسانیوں کے دور میں بلوچستان میں بغاوتوں کا سلسلہ تو چلتا رہا لیکن کسی الگ بلوچ ریاست کے حوالے سے ٹھوس تاریخ ثبوت موجود نہیں البتہ بلوچستان کا نام قدیم عہد پہ کی گئی تحقیق میں سامنے آتا رہا ہے جیسے اشوک کے دور میں ”بلچچستان“۔ اور رائے خاندان کے زمانے کو لانگ ورتھ ڈیز اپنی کتاب”کوچ و بلوچ“ میں یوں بیان ہے کہ 635ء میں یہ وطن سندھ کے حکمران رائے چچ کے قبضہ میں رہا۔اس کی مملکت شما ل میں قندھار تک اور مشرق میں دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔ چچ نامہ کے مصنف مرزا قلیچ بیگ کا یہ جملہ قابل غور ہے کہ ”اس کے ملک کا علاقہ شاہان ہند کے علاقے سے محلق تھا۔“ اور پھر کرمان اور مکران کی حد بندی کے لیے جو برجیاں قائم کیں اور اسی تاریخ سے اس کے قبضہ میں ہیں۔ 5
یعنی رائے خاندان سے قبل ساسانیوں کے آخری دور میں یہ اپنے علاقوں میں آزاد تھے۔ جس کی دلیل عربوں کے خلاف مکران اور جھالاوان کی مزاحمت ہے۔
ساسانیوں کی طویل حکمرانی عربوں کے ہاتھوں زوال پذیر ہوا، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ عربوں کی یہ فتح بلوچوں کی مرہون منت ہے جہاں ”سیاہ سوار“ نے بلوچ لشکر کے ساتھ عرب لشکر میں ہراول کا کردار ادا کیا۔ سیاہ سوارکے ان کارناموں کا تذکرہ شانامہ نوبختی میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے، کہ کس طرح انہوں نے عربوں کے ساتھ معاہد کیا اور ایرانی لشکر کی شکست میں سیاہ سوار کا کیا کردار رہا۔ بہر یہ ایک طویل بحث ہے ہم آتے ہیں موضوع کی جانب۔

عرب دور میں جہاں ایک جانب سیاہ سوار عربوں سے اتحاد کرتا ہے تو دوسری جانب بلوچستان کے دیگر علاقوں جیسے مکران میں،عرب اور بلوچ ایک دوسرے کے مدِ مقابل نظرآتے ہیں، لیکن مکران کی دشوار گزار زمین اور موسم نے عربوں کو پیچھے ہٹنے پہ مجبور کیا۔ اس کے بعد حضرت امیرماویہ ؓ کے دورِ حکومت میں مکران اور قیقانان(کلات) پہ عربوں کے حملوں کا تذکرہ ملتا ہے۔سنان بن سلمہ کے بعد عربوں نے راشد بن عمرالجدالازروی کو سرحدات کا والی مقرر کیا۔وہ مکران آئے اور قیقانان پر حملہ آورہوئے۔ انہوں نے مکران کے میدوں سے جنگ کی اور اس جنگ میں وہ مارے گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ساسانیوں کے بعدان علاقوں میں آباد بلوچوں نے اپنی آزادریاست قائم کی ہوگی۔ حالانکہ ساسانیوں کے وقت میں رائے خاندان کی حکمرانی کا تذکرہ بھی ملتا ہے کہ انہوں نے پورے بلوچستان تا حدِ کرمان تک کے علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل کیا لیکن تاریخ میں عربوں کے ساتھ ان جنگوں کا تذکرہ مقامی افراد اور عربوں کے درمیان بتایا گیا ہے۔ جیسے مکران کے مید جو سمندرکے”نرمزار“ تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان میں رائے خاندان کی حکمرانی برائے نام تھی اور اصل حکمرانی مقامی باشندوں کی ہی تھی جہاں وہ کسی قبضہ گیر کو خاطر میں لائے بغیر اپنی سرشت کے مطابق آزاد زندگی گزاررہے تھے۔
عرب مورخین نے اپنی کتابوں میں مکران کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ مکران کے ان تذکروں میں چند ایک شہروں کا بھی انہوں نے تفصیلی ذکر کیا ہے۔اس ضمن میں حمید بلوچ رقمطراز ہے کہ عرب مورخین کی ان کتابوں میں جہاں مکران کا ذکر آیا ہے وہاں اس کے اہم شہر کیچ یا کیج کا ذکر بھی آیا ہے۔جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ شہر سرزمین سندھ کے کسی بھی بڑے شہر سے کسی بھی طور کم نہیں ہے۔اس شہر کے بڑے بڑے بازاروں کا ذکر بھی ان کتابوں میں درج ہے جن میں ضروریات زندگی کے تمام اشیاء دستیاب تھے۔ 6
اتنے بڑے شہروں کی موجودگی، اس امر کو مزید تقویت بخشتی ہے کہ یہاں مربوط ریاستی نظام قائم تھا۔ اس کے علاوہ ان کی عربوں کے خلاف مزاحمت بھی ریاستی نظام کی موجودگی پہ دلیل کرتی ہے جہاں وہ ہر نکڑ پہ عربوں کے خلاف کمربستہ تھے اسی لیے سندھ میں قدم رکھنے سے پہلے عربوں نے بلوچوں کے خلاف طویل جنگ لڑی۔ جس کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں بھی درج ہے کہ محمد بن قاسم کو سندھ فتح کرنے سے پہلے ان بغاوتوں کو فرو کرنے میں اچھا خاصا وقت صرف کرنا پڑا۔7
اکثر اوقات یہ ہوتا تھا جب عرب ایک جگہ بلوچوں کو شکست دے کر آگے بڑھتے توبلوچ دوبارہ ان کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرتے۔ جس طرح خضدار جسے سنان بن سلمہ نے فتح کیا تھا۔ اس کے مکینوں نے دوبارہ عربوں کے خلاف بغاوت کردی تھی۔8
اسی زمانے میں مکران اور بلوچستان کے دیگر بعض علاقوں پہ عربوں کی لشکر کشی کا تذکرہ ملتا ہے۔ جیسے محمد بن قاسم کے حوالے سے مشہور ہے کہ وہ مہینہ بھر مکران میں ٹھہرے، پھر قنزپور(پنجگور) آئے۔
خضدار جسے سنان بن سلمہ نے فتح کیا تھا۔ اس کے مکینوں نے دوبارہ عربوں کے خلاف بغاوت کردی تھی۔یہ پہلا مقام ہے جو اس نے فتح کیا۔اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مکران کے باشندے آئے روز عربوں کے خلاف مزاحمت کرتے رہے۔9
بلوچستان میں کیچ، پنجگور، خضدار اور قلات کے علاقوں پہ عربوں کی لشکر کشی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں کے مکین ریاستی نظام کے مالک تھے جس نے ان کی عسکری طاقت کو مضبوط بنایا تھا لہذا عربوں کو آگے بڑھنے کے لیے ان علاقوں کو زیرکرنا دفاعی نقطہ نگاہ سے ازحد ضروری تھا اسی لیے اس پورے زمانے میں ان کی فوج بلوچوں کے خلاف جنگوں میں مصروف رہا۔
اموی خلافت کے دور میں بعض بلوچ قبائل جنہوں نے جنگوں کے دوران جہاں وہ عربوں کے اتحادی تھے جاگیرں حاصل کی تھیں۔ ویسے تو عربوں سے قبل ایرانی حکمرانوں کے دور میں بھی بلوچ ان کے لشکر میں کلیدی اہمیت کے حامل رہے ہیں ممکن ہے کہ ان زمانوں میں بھی انہیں وہاں جاگیری ملی ہوں لیکن عرب دور میں جو شرائط انہوں نے خلیفہ دوم کے ساتھ طے کیے تھے کہ”ہم جہاں چاہے رہ سکتے ہیں۔“ لہذا اس زمانے میں ان کی قابل ذکر آبادی عرب علاقوں کی جانب منتقل ہوگئی، جو بنو امیہ کے دورمیں وہاں سے دوبارہ مہاجرت پہ مجبور ہوگئے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مہاجرت کرنے والوں نے اپنی فصیح و بلیغ زبان سنبھال رکھی تھی جو اس زمانے کی شاعری میں آج بھی محفوظ ہے۔لہذا یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ یہ وہی قبائل تھے جو سقوطِ ایران کے بعد عربستان میں آباد ہوگئے۔
بلوچ، عرب چپقلش کی شدت کا انداہ ہم اس بات سے بھی لگاسکتے ہیں کہ عربوں نے ان پہ عربستان کی زمین تنگ کردی اور انہیں مہاجرت پہ مجبور کردیا لہذا یہ بلوچ قبائل وہاں سے اپنے آبائی علاقوں کی جانب مہاجرت کرکے کرمان ازاں بعد مکران میں آباد ہوگئے جو تاریخ میں رند و لاشار کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
عباسی دور میں بلوچ اور عربوں میں بڑی خونریز جنگیں ہوئیں بالخصوص سیستان میں جہاں میر حمزہ آذرک نے ہارون الرشید کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کیا۔ اور بہت جلد انہیں شکست دے کر انہوں نے اپنی حکومت قائم کرلی۔
دسویں صدی عیسوی میں بلوچ ایرانیوں کے خلاف پچاس سال تک مزاحمت کرتے رہیں۔ اس زمانے میں جب علی بن بوواحدی اور ابو للسان بن احمد بن بوواحدی اصفہان کے حکمران بن گئے۔ انہوں نے جیرفٹ اور کرمان کے بلوچ علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں بلوچ قبائل کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔بلوچوں اور ایرانیوں کے درمیان تنازعہ نصف صدی سے زیادہ عرصے تک جاری رہا۔10
اس دوران کرمان کے کوہ قفص کی جنگ کافی مشہور ہے جہاں کتوں کو آگ لگادی گئی اور بھسم ہونے والے کتے اپنی جان بچانے کے لیے اپنے بلوچ مالکان سے لپٹتے گئے جس کی وجہ سے بلوچوں میں افراتفری پھیل گئی۔ اسی دوران دشمن بھی سرپہ پہنچ گیا جس نے اس افراتفری کا فائدہ اٹھایا اور بلوچوں کو شکست دے دوچار کیا۔
دسویں صدی عیسوی میں بلوچستان میں عربوں کا عمل دخل نہ ہونے کے برابرتھا لہذا اس موقع سے فائدہ اٹھا کر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بلوچوں نے اپنی آزادانہ ریاستیں قائم کی۔ جیسے کیچ، مشکے، کلات، خضدار، گنداہ، پنجگوروغیرہ جہاں مقامی افراد کی اجارہ داری تھی لیکن وہ کوئی متحدہ قوت بننے میں ناکام رہے کیوں کہ ان میں بیرونی حملہ آوروں کے پُرزور حملوں کی وجہ سے رابطہ کاری کا فقدان پیدا ہوچکا تھا۔ انہی خاندانوں میں سے ایک ”مادن“یا ”معدان“خاندان تھا جس نے مکران میں اپنی حکومت قائم کی۔ مادن خاندان کی یہ حکومت بلوچستان کے دیگر علاقوں کی نسبت منظم تھا۔اولین دور میں مادن خاندان کی حکمرانی صفاریوں کے زیر اثر تھا اوروہ انہیں واجبات بھی ادا کرتے تھے۔جب 914ء میں صفاریوں کو ترکوں کے ہاتھوں شکست ہوئی تو مادن خاندان نے مکران میں اپنی حکومت مستحکم کرلی۔ابن حوقل کا حوالہ دے کر پناہ بلوچ رقم طراز ہے کہ مکران ایک وسیع و عریض علاقہ ہے۔ لیکن پانی اور اشیاء خوردونوش کی نایابی بدرجہ اتم مودجودہے۔ حسین بن عیسیٰ معدان یہاں کا حاکم ہے۔11
آگے چل کر وہ رقمطراز ہے کہ یہ ملتان جیسا بڑا شہر ہے اور اس کے ساحلی علاقے میں ایک قابل استعمال بندرگاہ موجود ہے۔12
اس ضمن میں حمید بلوچ رقمطراز ہے کہ دسویں صدی عیسوی میں اگرچہ مکران میں عربی یا بلوچ نژاد عربوں کی حکومت تھی لیکن ہندوستانی تہذیب کے اثرات بھی ان پر حاوی تھے۔ اس بات کی استخری کے اس بیان سے بھی تائید ہوتی ہے جس کے مطابق عیسیٰ بن مادن کو مقامی زبان میں مہاراجہ کہا جاتا تھا۔ 13
حاکم کے لیے لفظ مہاراجہ کا استعمال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ حاکمین عرب نہیں بلکہ یہاں کے مقامی باشندے تھے اور یہ لفظ بلوچوں کے لیے نیا نہیں کیوں کہ اس کی نشاندہی لانگ ورتھ ڈیمز نے اپنی کتاب کوچ و بلوچ میں بھی کیا ہے کہ ”راجا تا راجا سے، مہاراجا سے“(راجہ سے مہا راجہ سے) یعنی دو ہزار سال قبل بھی بلوچ سماج میں یہ لفظ حاکم کے لیے بکثرت استعمال ہوتاتھا جبکہ آج تک کسی عرب حاکم کے لیے اس لفظ کا استعمال سامنے نہیں آیا۔ جس اس بات کو مزید تقویت ملتی ہے کہ ان علاقوں میں عربوں کی نہیں بلکہ اس دور میں بلوچوں کی حاکمیت قائم تھی۔ ویسے بھی فردوسی نے ”ماد“ دور میں پورے بلوچستان میں بلوچوں کی موجود کی شہادت دی ہے۔ لہٰذا اب اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے کہ مادن(معدان) خاندان دراصل مکران کے بلوچ ہی تھے۔
اس کے بعد غزنوی دور شروع ہوتا ہے، اس زمانے میں بھی اکثر مفکرین پورے بلوچستان، کرمان اور خراسان کے بعض علاقوں میں بلوچوں کی موجودگی کی شہادت دیتے ہیں۔ اس زمانے میں غزنی کے حکمرانوں نے بلوچستان کے بعض علاقوں کو اپنی قلمرو میں بھی شامل کیا یہی وجہ ہے کہ اس کی فوج میں بلوچ بھی شامل تھے البتہ مکران میں معدان خاندان کی آزاد بلوچ ریاست قائم تھی۔ لیکن آنے والے دنوں میں بلوچوں اور غزنویوں میں گھمسان کی لڑائی ہوئی جس میں بلوچ حاکم بھی مارا گیا۔ اس کے بعدغزنویوں نے اپنے من پسند فرد کو یہاں کا حاکم بنایا جو انہیں مسلسل خراج ادا کیا کرتا تھا۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ ان دنوں مکران میں معدان خاندان کی نہیں بلکہ بلیدیوں کی حکمرانی تھی اس ضمن میں پروفیسر فاروق بلوچ رقمطراز ہے کہ مکران کے بھی بلوچ غزنی کی فوج میں شامل تھے کیونکہ مکران کا حاکم ابوسعید بلیدی غزنوی حکمران کااتحادی تھا۔ باقی بلوچ علاقوں کی بھی ایک بڑی تعداد غزنویوں کے ساتھ شدید جھڑپوں کے بعدان کی سیادت اور بالادستی تسلیم کرچکے تھی البتہ خراسان، دشت لوط، کرمان اور ساحل ایرانی مکران کے بلوچ غزنوی عہد میں میں آخر دم تک بغاوتیں برپا کررتے رہے البتہ مکران کا خطہ غزنوی حکومت کے زیراثر آگیا تھا۔14
غزنویوں کے ساتھ چپقلش سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ان سے قبل ان علاقوں میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم تھیں جن کے سربراہان یہاں کے مقامی لوگ ہی تھے۔ اور بعض بلوچ علاقوں میں آخر وقت تک غزنویوں کے خلاف جنگوں سے اس امر کو مزید تقویت ملتی ہے کہ یہاں کے مقامی افراد ہی یہاں کے حاکم تھے جو اپنی آزاد حکمرانی برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی طاقت ور حریف سے مقابلہ کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔
عرب سیاحوں کی کتابوں میں ایک اور ریاست کا ذکر بھی آیا ہے جسے انہوں نے”بلوص، بیلوس“ کا نام دیا۔ یہ ریاست بھی غزنویوں کے زیرِ آثر آگیا تھا لہذا یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ یہ ریاست غزنوی عہد سے قبل قائم ہوچکا تھا۔ اس ضمن میں تاریخ ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ قندھار کا قدیم نام بیلوس(بلوچ) تھا۔ اسے عربی میں بالش یا بیلوش یا والش لکھا گیا ہے۔ جبکہ دیگر زبانوں میں اسے واضح طور پر بیلوس تحریر کیا گیا ہے۔ 15
اس کے بعد سلجوقی دور شروع ہوتا ہے، جنہوں نے بلوچوں پہ ظلم و ستم کا نا ختم ہونے والا سلسلہ رواں رکھا۔ گیارہویں صدی کے وسط میں قوارد خان نے سجستان (سیستان)اورکرمان پہ قبضہ کرلیا۔ مکران اب بھی ان کی دسترس میں نہیں آیا تھا اور یہاں کے مقامی افراد نے ان کے خلاف شدید مزاحمت کے سلسلے کو جاری رکھا۔ مکران میں ان دنوں ”ملکوں“ کی حکمرانی تھی۔”ملک“ ان مقامی حکمرانوں کا لقب تھا جو سلجوقیوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہورہے تھے۔مکران میں مقامی حاکمین جن کا لقب ملک تھا یکے بعد دیگرے حکومت کرتے رہے۔16
ملکوں کی حکمرانی مکران تک ہی محدود تھی جو آنے والے دنوں طاقتور حریفوں کے زیر اثر آتے گئے اور یوں مکران بھی بعد میں سلجوقیوں کے زیراثر آگیا جس میں ساحلی بلوچستان بھی شامل تھا۔
اگر ان دنوں کرمان، سیستان، توران، بیلوص اور دیگر بلوچ خطے یا ریاستیں وحدت کی شکل اختیار کرچکے ہوتے تو بلوچ خطے پہ ان حملہ آوروں کو حکومت کرنے کی جرات ہی نہیں ہوتی۔ انہی کمزریوں کی وجہ سے یہ خطہ مخالفین کے نشانے پہ رہا جنہوں نے لوٹ مار اور بربریت رواں رکھا۔جو کبھی عربوں کی صورت میں آتے، کبھی پارسی، کبھی ترک اور کبھی منگول۔

رند و لاشار
رندوں کا لشکر ایک یونین کی شکل میں کرمان سے مکران کی جانب غالباً بارہویں صدی میں مہاجرت کی۔اس یونین میں بلوچوں کے مختلف قبائل شامل تھے جن کی تعداد 44بتائی جاتی ہے۔ اگر ہم مغربی بلوچستان کے بعض خطوں پہ نظر دوڑائیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس یونین میں شامل تمام قبائل نے کرمان سے مہاجرت نہیں کی بلکہ ان میں وہ قبائل بھی شامل تھے جنہوں نے دوران سفر مختلف علاقوں سے ان کی ہمراہ داری کی۔یعنی سیتان کے بھی بعض قبائل ان شامل ہوگئے۔
ہوت قبیلہ جو 554قبل مسیح میں مکران میں آبادتھا اور ان کی جمعیت انتہائی مضبوط تھی جس کا تذکرہ ہیروڈوٹس نے بھی کیا ہے اوراسی ضمن میں پروفیسر فاروق بلوچ کہتا ہے کہ جس دوران رندوں نے مکران میں قدم رکھا تو وہاں ہوت قبیلے کی حکمرانی تھی۔ اس حوالے سے ڈیمس اور حمید بلوچ سمیت بہت سارے مورخین بھی بلوچستان میں رندوں سے قبل دیگر بلوچ قبائل کی موجودگی کا ذکر کرتے ہیں۔ان قبائل میں سے بھی بہت سارے دیگر مقامی قبائل بھی رندی لشکر میں شامل ہوگئے جس سے ان کی طاقت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔اور ویسے بھی ایک مختصر مدت میں کسی کے لیے ایک لشکر جرار کی تشکیل ممکن ہی نہیں۔لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ مختلف قبائل پہ تشکیل کردہ ایک یونین تھا اور اسی یونین کو ہی”رند“کا نام دیا گیا تھا۔ایک جانب ہم چوالیس طائفوں کا ذکرکرتے ہیں اور دوسری جانب ڈیمس یہ بھی کہتا ہے کہ ”بلوچ قوم پانچ مختلف شاخوں میں بٹ گئی جن کی سربرائی میر جلال خان کی اولاد کررہی تھی اور ان کی وجہ سے بلوچوں کے اولین پانچ قبائل وجود میں آئے۔“ اگر مکران میں ہی بلوچوں کے پانچ قبائل وجود میں آگئے تو وہ چوالیس طائفے کون تھے جن کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں۔دراصل وہ طائفے ہی نہیں بلکہ قبائل تھے جو آج تک وجود رکھتے ہیں۔ اور دوسری بات جہاں مورخین یہ کہتے ہیں کہ رند اور ہوت میں سرداری کے مسئلے پہ ٹھن گئی اور یہ حالات دیکھ کر میر رند کے دیگر بھائیوں نے بھی بغاوت کی اور تمام بھائیوں نے علیحدہ علیحدہ طور پر اپنی تخت نشینی کی رسم ادا کی۔یہ بات انتہائی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے کہ ایک نسل بعد یہ بھائی اتنے طاقتور ہوگئے کہ وہ الگ حکمرانی کے قابل بن گئے اور اپنے لیے الگ دھڑے تشکیل دیے۔حمید بلوچ اپنی کتاب تاریخ مکران میں اس نظریے کا حامی نظر آتا ہے جہاں وہ تحریر کرتا ہے کہ ہر قبیلے نے اپنے لیے الگ الگ علاقے چن لیے اور چھ نسلوں تک ان قبائل کی اپنے اپنے علاقوں میں حکومتیں قائم رہیں۔17
اس یونین میں شامل یہ چوالیس طائفے جن کی معیشت کا زیادہ تر دارومدار گلہ بانی پہ تھا لہذا کسی ایک علاقے میں اس کثیر تعداد کا گزر بسر ممکن ہی نہیں لہذا وہ مکران جو موجودہ مکران سے رقبے کے لحاظ سے کافی بڑا تھا جس میں سیستا ن کے بہت سارے علاقے شامل تھے وہاں جا کے بود و باش اختیار کیا، آبادی کو اس طرح متوازن رکھنے سے ان کی معیشت پہ منفی اثرات نہیں پڑتے تھے۔نہ کہ سردار ی کے نام پہ ناچاکی کی بنا انہوں نے الگ الگ خطوں میں حکمرانی شروع کی۔بلکہ معاشی ضروریات کی غرض سے وہ مکران کے مختلف علاقوں میں آباد ہوتے گئے۔
مکران پہ رندوں کی باقائدہ حکمرانی کا زمانہ بقول سردار محمد خان 1450ء ہے جو انہوں نے اپنی کتاب ”دی لٹریری ہسٹری آف بلوچیز“ میں تحریر کیا ہے۔ اس وقت تک چونکہ ان کی تعداد کا فی بڑھ گئی تھی اس لیے انہیں مکران جیسے بنجر علاقے جہاں خال خال ہی بارشیں ہوتی ہیں بڑی مشکلات پیش آرہی تھی۔ اس دور میں رند وں کی حکومت ایک جانب سیستان کے بہت سے علاقوں تک پھیل گئی تھی اور دوسری موجودہ دور کا پورا مکران ان کے زیرِ اثر آگیا تھا۔ رندوں میں یہ سردار شہک کا زمانہ تھا۔ میں سمجھتا ہوں اس حکومت کا آغاز بارہویں صدی عیسوی میں ہوا اور جلال خان ہی اس پہلا حاکم تھا جس نے بلوچوں کے بعض قبائل کو یکجا کرنے کی جانب قدم اٹھایا اورمیر شہک کے دور 1450ء تک یہ حکومت مستحکم بنیاد پہ قائم ہوچکی تھی۔
مکران سے رندوں کی ہجرت کی ایک اہم وجہ جو بیان کی جاتی ہے وہ ہے علاقے میں موسمیاتی تبدیلی جس سے خشک سالی کی لہر آگئی اور ان کا گزربسر انتہائی مشکل صورت اختیار کرگیا لہذا انہوں نے سراوان، جھالاوان اور کچھی کی جانب کوچ کیا۔ ممکن ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے انہوں نے کچھی، کلات اور اس سے متصل علاقوں پہ اپنی حکومت قائم کی ہو، لیکن میں سمجھتاہوں کہ رندوں کی کوشش یہ تھی بلوچ وحدت قائم ہواور جہاں بھی بلوچ آؓباد ہیں انہیں ایک ہی مرکز کے تحت لانا جس سے بلوچ منظم ہوکے تعمیر و ترقی کی جانب پیش رفت کرنے کے ساتھ بیرونی طاقتوں سے اپنی حفاظت بھی کرسکے۔اسی لیے جب انتہائی کسمپرسی کی حالت میں چاکر ڈیرہ جات میں زندگی بسر کر رہا تھا تو بقول فاروق بلوچ جنہوں نے اپنے ایک لیکچر میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ ”اس دوران بھی انہوں نے دو مرتبہ مکران کا دورہ کیا تھا۔“ لیکن آپسی خانہ جنگی کی وجہ سے وہ انتہائی کمزور پڑگئے لہذا ایسے میں مستحکم حکومت کا تصور کیسے پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے۔
پندرہویں صدی کے وسط میں رندو لاشار نے کلات اور کچی کی جانب کوچ کیا۔کلا ت کی میروانڑی حکومت کو ختم کرنے کے بعد لاشاری درہ مولہ کے راستے گنداوہ پہنچ گئے جبکہ رند بولان کے راستے ہوتے ہوئے ڈھاڈر فتح کیا اور سبی پہنچ گئے۔ اور سبی ہی ان کا پایہ تخت بنا۔ اور1487ء تک مکران سے کچھی تک کے علاقے ان کی حکومت کا حصہ بن چکے تھے۔ان علاقوں میں کوئٹہ بھی شامل تھا جہاں آج بھی کوہ مردار(مہردار) کے دامن میں حانی کا تخت موجود ہے جس کی وجہ سے وہ علاقہ آج بھی تختانی(تختِ حانی) کے نام سے مشہور ہے۔
رفتہ رفتہ خاران اور لسبیلہ بھی اس حکومت میں شامل ہوئے۔18
گل خان نصیر کمبرانی بلوچوں کی کلات پہ حکمرانی کا سال 1530ء بیان کرتا ہے، جب کہ 1487ء تک رندوں نے کلات فتح کرکے سبی کو پایہ تخت بنالیاتھا۔ لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ میر عمر نے غالباً رندوں سے کچھ عرصہ قبل بیرونی قوتوں کو شکست دے کر کلات کو اپنا زیر اثر لایا تھا یہ غالباً-75 1470ء کا واقعہ ہوگا۔
رنداور لاشار نے میر مندوکو کلات کی حکومت کی ذمہ داریاں اور لشکر کا کچھ حصہ سونپ کر باقی لشکر لیکر کچھی کی طرف کوچ کرگئے جہاں رندوں نے مستونگ سے ہوتے ہوئے دریا بولان عبور کیا اور لاشاری درہ مولہ کے راستے گنداواہ پہنچ گئے۔رندوں نے پہلے ڈھاڈر فتح کیا اور اس کے بعد سبی پہ قبضہ کرکے اسے مرکزبنایا۔جب کہ لاشاریوں کا مرکز گنداوہ سے 10کلومیٹر کی دوری پہ قائم علاقہ”گاجان“تھا۔
کچھ عرصہ گزرنے کے بعد رندوں اور لاشاریوں میں ناچاکی بڑھ گئی جو با لآخر ستائیس (27) سالہ رند و لاشار جنگ کی وجوہات بنی جس کی وجہ سے دونوں طاقتوں کی ایک بڑی اکثریت کو ان علاقوں سے ہجرت کرنا پڑا۔ رند و لاشار کی آپسی چپقلش سے فائدہ اٹھا کر میر عمر کا بیٹا میربجار جو کہ مستونگ میں خواجہ خیل قبیلے کی پناہ میں تھا،نے دوبارہ لشکر تیار کرکے قلات پہ قبضہ کرلیا۔

(جاری)

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here