بلوچ سرزمین تاریخ کے آئینے میں | ڈاکٹر جلال بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
20 Min Read

بلوچ سرزمین کا محل وقوع جاننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم تاریخ کے مختلف ادوار کا مشاہدہ کریں تب جاکے بلوچ وطن کی اصل ہیت ہمارے سامنے آسکتی ہے۔ موجودہ دور میں جن تین ممالک میں بلوچ وطن منقسم ہے تاریخ ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ مختلف ادوار میں بلوچ قوم کی منظم اور غیر منظم انداز میں انہی علاقوں پہ حکومت رہی ہے۔بلوچ ہزارہا برس سے قبائلی نظام میں منظم چلے آرہے ہیں۔اس قبائلی نظام کو ہم قدیم ریاستی نظام بھی کہہ سکتے ہیں۔1
البتہ خطے میں اکثر و بیشتر اوقات ہم مختلف بلوچ قبائل کو ایک ہی صف میں دیکھتے ہیں جن کا تذکرہ تاریخ کی اولین کتاب ”ہیروڈوٹس کا سفرنامہ“ اور مولانا حکیم ابولقاسم فردوسی کی شاعری کا مجموعہ”شاہنامہ“ میں بھی موجود ہے۔لیکن ان کی حکومتیں ریاست قلات اور آسکانیوں (پارتھین) سے قبل شایدہی کسی دور میں وقت و حالات کی مناسبت سے مربوط خطوط پہ استوار ہوں۔ اسی لیے ہر دور میں وہ طاقتور ریاستوں کے عتاب کا شکار بنے رہیں۔ان یورشوں کی وجہ سے وہ کبھی مہاجرت تو کبھی پھر سے منظم اور غیر منظم انداز میں انہی طاغوتی قوتوں کے خلاف برسرپیکار رہے۔ان حملہ آوروں سے برسرپیکار رہنے کا مطلب کہ انتہائی سخت حالات میں بلوچوں میں یکجہتی کی رسم ملتی ہے اور اگر یکجہتی نہ ہوتی تو آج بلوچ کا وجود بھی ناپید ہوتا۔کسی غیر قوم کی طرف سے جارحیت کی بات کریں تو بلوچ ایک دم ایک بن جاتا ہے۔2
آرین حملوں سے قبل یعنی پیش دادی دور میں اس پورے خطے میں جہاں آج بھی بلوچ آباد ہیں بلوچوں کی موجودگی کے شواہد ملتے ہیں۔ اس ضمن پروفیسر ڈاکٹر فاروق بلوچ اپنی کتاب”بلوچ اور ان کا وطن“ میں رقم طراز ہے کہ پیش دادیوں کے دور میں بلوچ ہیرکانیہ (Caspian Sea)کے ساحلی علاقوں، اس سے متصل پہاڑی سلسلے کوہ البرز، مازندان، ایلان، گیلان، تبریز، ترکمانستان کے پورے علاقے دشت لوط اور صحرائے کرمان، کرمان شہر اور اس سے متصل پہاڑوں (کوہ قفص) میں آباد تھے اس کے علاوہ مکران، سیستان، خراسان، سراوان، اور جہالاوان اور وسطی بلوچستان میں بھی سکونت رکھتے تھے۔3پروفیسر ڈاکٹرفاروق بلوچ کے نظریے اور تحقیق کی رو سے اس زمانے میں بھی بلوچ قوم اسی خطے میں آباد نظرآتا ہے۔ جس میں بحیرہ ہیرکانیہ(Caspian Sea)سمیت ایران کے وہ تمام علاقے ایلان و گیلان سمیت جن میں آج بھی بلوچ قوم آباد ہے، کے علاوہ مکران، سراوان اور جھالاوان کے علاوہ وسطی بلوچستان میں بھی بلوچوں کی موجودگی کا ذکر ملتا ہے۔پیشدادی دور میں بلوچوں کی اپنے وطن میں موجودگی کے آثار تو ملتے ہیں لیکن شواہد دستیاب نہیں کہ آیا 2100ق م میں متذکرہ علاقوں میں ان کی حکومت بھی قائم تھی۔ اگر ہم دیکھیں تو 1600ق م میں آرین حملوں کا ایک بڑے عرصے تک مقابلہ اسی خطے میں بسنے والے ناروئی بلوچوں نے کیا جو اس جانب بھی دلیل ہے کہ اگر چہ تو ان کی کوئی منظم حکومت نہیں تھی لیکن ان کا قبائلی نظام مربوط خطوط پہ استوار ہوچکا تھا جہاں ان کے آپسی تعلقات کافی خوشگوار تھے اسی لیے انہوں نے اس خطے میں طویل مدت تک آرین حملہ آوروں کو مصروف رکھا۔اس خطے میں بسنے والے قبائل کی اس طویل جنگ کا اندازہ ہم اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ آرین حملہ آواروں نے جاکے 854ق م میں ایران پہ قبضہ کر کے اپنی حکومت کی داغ بیل ڈال دی۔”تاریخ بھی ان حملوں کی مکمل تصدیق کرتی ہے کہ جب ایران پر آریائی حملہ شروع ہوا تو سب سے پہلے ان کے مدمقابل ہیرکانی اور ناروئی بلوچ آئے جن کے ساتھ ان کی خونی چپقلش شروع ہوئی۔ 4
بعض دیگر بلوچ قبائل کی طرح ہیرکانیوں کا ذکربھی ہیروڈوٹس نے اپنے سفرنامے میں کیا ہے جہاں وہ انہیں ہیرکانی کے علاوہ کاسپین اور چند ایک مقام پہ کاسپیری کا لفظ بھی غالباً انہوں نے انہی قبائل کے لیے استعمال کیا ہے،یعنی کیسپین کے باشندے کہہ کر پکارتا ہے۔ ہیرکانیوں کے علاوہ بھی بعض دیگر قبائل کا ذکر بابائے تاریخ ہیروڈٹس کے سفر نامے میں موجود ہے،جیسے مائشی(ماماشئی، محمدشہی)،ماسینی(ممسنی، محمد حسنی) ساسپیری، سرپرائے (سرپرہ) پاریکانی(پرکانی) ہوت، پارتھیئن(آسکانی) ماکرونی، (مکران کے باشندے)ساگدی(ساجدی)تیارانی (توران زئی)یہ وہ قبائل ہیں۔ایک اور بات کہ یہ قبائل انہی ناموں سے مکران، مغربی بلوچستان، رخشان، ساروان اور جھالاوان میں آباد ہیں۔ہیروڈوٹس انہیں جنگ کا دھنی کہتا ہے جیسے وہ ہخامنشیوں کا یونان کے خلاف جنگیں وغیرہ جو زرکیسز اور داریوش کے دور میں لڑی گئیں۔اپنے سفرنامے میں وہ ان قبائل کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچتا ہے کہ کاسپیری اور پاریکانیوں نے بھی اپنے پیادوں جیسے ہتھیار اٹھا رکھے تھے۔ 5 ایک اور جگہ وہ یوں رقم طراز ہے کہ ساسپیری کولکیوں کے انداز میں مسلح تھے۔6
ہیروڈٹس بلوچوں کو کہیں علاقائی تو کہیں قبائلی شناخت سے ظاہر کرتا ہے جیسے مکران کے باشندوں کو ماکرونی، ہیرکانیہ کے باشندوں کو کاسپین اور ہیرکانین، جبکہ پاریکانی(پرکانی یا پرکانڑیں)،ساسپیری، سرپرائے(سرپرہ) ماسینئن، ماسینی(ممسنی، محمدحسنی) مائشی (ماماشئی، محمدشئی)یوتی (ہوت)، ساگدی (ساجدی)وغیر ہ کو ان کے قبائل کے نام سے یاد کرتا ہے۔
ہیروڈوٹس سے قبل کے زمانے میں بلوچوں کا تذکرہ ابولقاسم فردوسی کی کتاب شاہنامہ میں موجود ہے، گو کہ فردوسی کی کتاب لگ بھگ ایک ہزار سال قبل تحریر ہوئی ہے لیکن انہوں نے جس انداز سے اس خطے میں بسنے والوں کا نقشہ کھینچا ہے وہ افسانوی اور دیومالائی سے زیادہ حقیقت پہ مبنی لگتا ہے،دراصل حقائق پہ مبنی اس رنگ کی وجہ واقعات کی کڑیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ گلدستے کی صورت میں پیوست ہونا ہے۔جہاں وہ انہیں مید(آرین) دور میں اس خطے میں آباد ظاہر کرتا ہے یعنی ہیروڈوٹس کے زمانے سے لگ بھگ تین صدیاں قبل کے زمانے میں۔
جبکہ اس ضمن میں گل خان نصیر اپنی کتاب ”تاریخ بلوچستان“ میں ان تمام تاریخی حقائق کے منافی بلوچوں کو ایک محدود خطے میں آباد ظاہر کرتا ہے۔اس حوالے سے وہ رقم کرتا ہے کہ یہ قوم زمانہ قدیم میں عربستان، دجلہ و فرات کی وادیوں اور حلب کے مرغزاروں میں ایرانی سرحد کے ساتھ ساتھ آباد تھی اور ایران میں تبریزسے کوہ البرز کے دامن میں مشہد تک پھیلی ہوئی تھی۔ 7
گل خان نصیر کا یہ نظریہ تاریخی حقائق کی مکمل نفی کرتا ہے لہذا یہ نظریہ بلوچ تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے جس میں کوئی معتبر دلیل بھی نہیں لہذا ایسا نظریہ تسلیم کرناتاریخ کے طالب علم کے لیے ممکن ہی نہیں۔کیوں کہ حقائق جن کا درج بالا سطور میں ذکر ہوچکا ہے،ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بلوچوں کا خمیر اسی خاک سے اٹھایا گیا ہے جس کی سرحدیں ہندوستان، ایران، افغانستان اور بحری راستے عرب ممالک سے ملتی ہیں۔
مید آرین قبائل کا ایران میں حکمرانی کے دور میں رستم بن زال کے قصے ایرانی تاریخ میں مفصل انداز میں بیان کی گئی ہیں، بالخصوص فردوسی نے رستم کی شخصیت کو جس انداز سے پیش کیا ہے وہ قابل دید ہے۔ رستم سیستان کا حاکم تھا، سیستان جو آج بھی بلوچوں کی سرزمین ہے اس زمانے میں اس سے تین صدیاں بعد ہخامنشی دور میں ہیروڈوٹس نے بھی اس علاقے میں بلوچوں کی جمعیت کا ذکر کیا ہے۔ لانگ ورتھ ڈیمز اپنی کتاب”کوچ و بلوچ اور بلوچ نسل“ میں ماد(میڈین) دورِ حکومت کا تذکرہ جب رستم ”کک کوہزاد“ کی سرکوبی کو نکلتا ہے فردوسی سے منقول اس انداز سے کیا ہے۔کہ
نشتند دران بسیار کوچ
زارغان و لاچین و کرد و بلوچ

کہ زابل بہ سہ روز ِراہ
یکے بود کوہ سر کشیدہ بہ ماہ

بہ یک سوئے او دشت خرگاہ بود
دگر دشت زان ہند را راہ بود 8

ترجمہ:
وہاں بڑی تعداد میں
زاوغان، لاچین، کرد اور بلوچ رہتے تھے

جو زابل سے تین دن کی مسافت پہ ہے
ایک سربہ فلک پہاڑ جیسے چاند کو چھو رہا ہو

اس کے ایک طرفدشت خرگا ہ تھا
دوسری جانب ہندوستان کو جانے والا راستہ
یعنی فردوسی اسی دور میں بلوچوں کو بوالان، سراوان اور جھالاوان تک آباد ظاہر کرتا ہے۔فردوسی کے بالا اشعار جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بلوچ اپنے وطن میں ہزاروں سالوں سے آباد چلے آرہے ہیں۔یہاں دشت خرگاہ اس علاقے کو کہہ رہا ہے جو چلتن کے دامن سے شروع ہوکے سرِ بولان(کولپور)یعنی راہ ہند تک پھیلا ہوا ہے۔ آج بھی یہ علاقہ دشت خرگاہ کے نام سے جاناجاتا ہے۔ اسی علاقے میں ہی دو بلند و بالا سلسلہ کوہ ہیں جن میں سے چلتن اور دوسرا مہر دار(کوہ مردار)۔بلوچ مصنف اور دانشور ڈاکٹر شاہ محمد مری بھی فردوسی کے نظریے کا قائل ہے کہ بلوچ کیخسرو کے لشکر کا بہادری و دلیری کے صفات سے مزین ایک حصہ سمجھے جاتے تھے۔جنہوں نے کبھی بھی میدان جنگ میں پیٹھ نہیں دکھائی تھی۔9

کیخسرو کے زمانے میں فردوسی بلوچوں کی منظر کشی انداز سے کرتا ہے کہ

سیاھش ز گردان کوچ و بلوچ
سگالیدہ جنگ و برآور دہ خوج

کسی درجھان پشت ایشان ندید
برھنہ یک انگشت ایشان ندید

درفشی برآوردہ پیکر پلنگ
ھمی ازدرفش ببارید جنگ10

ترجمہ:
بلوچ اور کوچ کمانڈروں کے ماتحت سپاہی
سر پر خود پہنے ہوئے جنگ کے دھنی

دنیا میں کسی نے ان کوپیٹھ دکھاتے ہوئے نہیں دیکھا
ان کی ایک انگلی تک ہتھیاروں سے خالی کسی نے نہیں دیکھی

چیتے کی شبیہ کا جھنڈا لہراتے ہوئے
جھنڈا ہر سْو جنگ بپا کرتاہوا

جبکہ کیخسرو کے زمانے سے قبل یعنی بادشاہ سیاؤش کے زمانے میں بھی ابولقاسم فردوسی بلوچوں کو عسکری حوالے سے ایرانی لشکر میں ظاہر کرتا ہے اس حوالے سے فردوسی رقم طراز ہے کہ

گزین کردازآن نامدار سورا
دلیران جنگی دہ و دو ہزار

ھم از پھلو و پارس و کوچ و بلوچ
زگیلان جنگی و دشت و سروچ

سپرور پیادہ دہ و دو ھزار
گزین کر د شاہ از در کارزار11

ترجمہ:
اس طرح انہوں نے نامور سواروں کو جنگ کے لیے چنا
میدان جنگ کے بارہ ہزار بہادر

پہلوی اور فارسی اور کوچ و بلوچ
معرکہ خیز گیلان سے لیکر دشت سروچ تک

بارہ ہزارڈھال بردار اور پیادہ سپاہی
اس طرح بادشاہ نے میدان کارزار گرم رکھا

لیکن آج بھی بعض دانشوراور تاریخ نویس جن میں بلوچ دانشور اور محققین بھی شامل ہیں جیسے گل خان نصیرجن کا نظریہ درج بالا سطور میں بیان ہوچکا ہے۔ ان حضرات کا نظریہ ہے کہ بلوچ میدیوں اور ہخامنشیوں کے بعد یعنی ساسانی دور میں بلوچستان بالخصوص جھالاوان،سراوان اور ازبعد وسطی بلوچستان میں آباد ہوگئے تھے۔ جو نہ صرف فردوسی بلکہ ہیروڈوٹس اور توراکینہ قاضی (جن کی تصنیف ”سائرس اعظم“ میں عظیم تربلوچ خطے میں بعض بلوچ قبائل کا تذکرہ ملتا ہے) کے خیالات کی مکمل نفی ہے ہاں البتہ یہ ممکن ہے کہ ان کے بعض قبائل نوشیروان، عربوں اور از بعد سلجوقیوں کے حملوں سے پسپاء ہوکر جھالاوان اور اس کے گرد و نواع میں آباد ہوئے ہوں لیکن مجموعی طور پر تاریخ اس جانب ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ بلوچ ازمنہ ءٓ قدیم سے یعنی آرین حملوں سے قبل اس خطے میں آباد تھے۔بلکہ اس زمانے میں ممکن ہے کہ ان کا خطہ زیادہ وسیع و عریض ہو جیسے ایلان و گیلان، کرمان، ہیرکانیہ وغیرہ جسے بعض مورخین اپنے دلائل سے ثابت بھی کرتے ہیں کہ بلوچ زمانہ قدیم میں ان علاقوں میں آباد تھے۔ اس کے علاوہ گل خان نصیر بلوچوں کی سپا گری کو مقدونیہ کے حاکم سکندر کے دور میں دیکھتا ہے جب کہ ایران کے مید(آرین) حکومت میں بلوچ نہ صرف عسکری میدان میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے تھے بلکہ ان کے اس دور کے بہادری کے قصے شاہنامہ میں بیان بھی ہوچکے ہیں۔اس کے علاوہ ہخامنشی دور میں ہیروڈوٹس انہیں جنگ کا دھنی ظاہر کرتا ہے۔اگر باریک بینی سے مشاہدہ کیا جائے تو ایک بات جو بلوچوں کی آرین حملوں کے دوران فن سپاہ گری کو ظاہر کرتی ہے اور از بعدایران کے آرین حکومت کی فوج میں بھی انہیں شامل کیا جاتا ہے، کیا یہ اس جانب دلیل نہیں کہ بلوچ ماد(آرین) دور سے قبل اپنے علاقے میں ریاستی رموز سے واقف تھے اور یہ ممکنات میں سے بھی ہے کہ اس دور میں بلوچوں کی آزاد اور منظم حکومت ہو کیونکہ ایک حملہ آور قوم(آرین) جنہیں تاریخ منظم اور طاقت ور ظاہر کرتی ہے ان کا صدیوں تک مقابلہ کرنا منظم طریقہ کار کے بنا ممکن ہی نہیں اور کسی بھی گروہ کو لگ بھگ سات، آٹھ سو سال تک ایک حملہ آور کے خلاف مزاحمت کے لیے تیار کرنا فقط قبائلی نظام میں ممکن ہی نہیں بلکہ اس کے لیے منظم ریاست کی ضرورت پڑتی ہے کیوں کہ ریاست ہی کسی اتنی طویل اور صبر آزما جنگ کے لیے موثر ذریعہ ہوسکتا ہے۔ البتہ منظم ریاستی نظام کا نظریہ ازخود ایک وسیع و عریض موضوع ہے جو مزید تحقیق کا خواہاں ہے، ہم آتے ہیں اصل موضوع کی جانب کہ بلوچ خطے کا حدود اربعہ کیا تھا اور آج کہاں اور کن علاقوں میں بلوچ آباد ہیں۔
بلوچ سرزمین کی سیما کے حوالے سے آج بھی مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے میں سمجھتا ہوں اس کی سب سے بڑی وجہ بلوچ تاریخ کو مرتب اور تحریر کرنے والے بیرونی حملہ آوار ہیں۔کیونکہ ہر حملہ آور چونکہ عسکری مقاصد لیکر وارد ہوتا ہے لہذا وہ تاریخ کو بھی ایسے خطوط پہ استوار کرنے کی کوشش کرتی ہے جس میں انہیں اپنے مقاصد کا حصول سہل لگے۔البتہ بعض بلوچ مورخین جیسے پروفیسر ڈاکٹر فاروق بلوچ،محمد سردارخان اوربلوچ سیاسی رہنما میر عبدالعزیز کرد کی آراء میں بلوچستان کا کل رقبہ 3,40,000ہزار مربع میل بنتا ہے۔ اس حوالے سے محمد سردار خان نے جو لائن کھینچی ہے وہ ترکمانستان کی سرحد کے ساتھ واقع ایرانی شہر ”سرخس سے گمبد مشہد، اور پھر سیدھی بمپور، رامیش اور پھر بندر عباس تک جائے تو اس لائن کے مشرق میں افغانستان اور ایران کی حدود کوچھوتا ہوا تمام علاقہ بلوچوں کا ہے اور اس کا کل رقبہ 3,40,000مربع میل بنتا ہے۔“ یعنی موجود پورا بلوچستان ماہ سوائے پشتون اضلاع کے اور ایران اور افغانستان میں منقسم علاقوں کے ساتھ ساتھ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخواہ میں ڈیرہ سماعیل خان کے کچھ علاقے عظیم تر بلوچستان پہ مشتمل خطہ ہے۔ ڈاکٹر عنایت اللہ بلوچ بھی اسی نظریے کا قائل ہے،اپنی کتاب ”دی پرابلمز آف گریٹر بلوچستان میں وہ رقم کرتا ہے کہ بلوچستان جو سیاسی طور پر تین مختلف ممالک میں منقسم ہے جس کا کل رقبہ 3,40,000مربع میل ہے۔ 12
اس وسیع و عریض خطے میں بلوچوں کا ریاستی اداروں بالخصوص عسکری میدان میں موجودگی پیشدادی دور2100قبل مسیح، ماد(میڈین) زمانہ 854قبل مسیح، ہخامنشی دورحکومت 550قبل مسیح کے زمانے کے شواہد ملتے ہیں جو عظیم تر بلوچستان ہے۔ اس کے علاوہ مہر گڑھ اور دیگر قدیم تہذیبوں کی دریافت نے اس نظریے کو مزید وضع کیا ہے کہ یہی خطہ بلوچوں کی جنم بومی ہے اور بلوچوں کا خمیر اسی مٹی سے اٹھائی گئی ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ ہزاروں سالوں پہ محیط تاریخ میں بلوچ خطہ اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ شورشوں میں گزارا جو آج بھی جاری ہے۔انہی شورشوں کی وجہ سے بلوچ خطہ مختلف ادوار میں تقسیم در تقسیم کا شکار بھی ہوتا رہا۔لہذا اس مفصل بحث سے ہم اس نتیجے پہ پہنچے ہیں کہ یہی خطہ دراصل بلوچوں کا آبائی وطن ہے جو آج تین ممالک میں منقسم ہے جس کا رقبہ بالا سطور میں بیان ہوچکا ہے اور تاریخ وہ چاہے مشہور یونانی سیاح ہیروڈوٹس کا سفرنامہ ہو، ابولقاسم فردوسی کی تاریخ شاعری کا مجموعہ، عرب سیاح اصطخری، طبری، ابن حوقل، یونانی سیاح ایرین یا بعض دیگر قدیم تاریخ نویس، وہ از خود بلوچوں کی اس خطے میں ہزاروں سالہ معاشرتی زندگی کی شہادت دیتے ہیں۔

حوالہ جات
1۔مہر گڑھ سے ریاست کی تشکیل تک۔ڈاکٹر شاہ محمد مری۔سنگت اکیڈمی آف سائنسز، کوئٹہ۔اشاعت۔2016۔ص۔118۔
2۔ایضاً
3۔بلوچ اور ان کا وطن۔فاروق بلوچ۔فکشن ہاؤس۔اشاعت۔2019۔ص۔115۔
4۔ایضاً
5۔دنیا کی قدیم تاریخ۔ہیروڈوٹس۔ترجمہ۔یاسر جواد۔نگارشات پبلشر لاہور۔اشاعت۔2019۔ص۔112۔
6۔ایضاً۔ص۔114۔
7۔(تاریخ بلوچستان۔میرگل خان نصیر۔قلات پبلشر۔اشاعت ششم۔2016۔ص۔1۔
8۔کوچ و بلوچ۔میرگل خان نصیر۔سیلز اینڈ سروسز۔اشاعت۔1999۔ص۔24-25۔
9۔ڈاکٹر شاہ محمد مری۔2016۔ص۔122۔
10۔ شاہنامہ۔حکیم ابوالقاسم فردوسی۔ صفحہ نمبر۔472۔
11۔ایضاً۔ص۔339۔
12۔ ڈاکٹر عنایت اللہ بلوچ۔دی پرابلمز آف گریٹر بلوچستان۔ترجمہ۔ریاض محمود انجم۔جمہوری پبلشر لاہور۔اشاعت۔2014۔ ص۔19۔

٭٭٭

Share This Article
Leave a Comment