بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرزکی شہر تربت میں پاک بحریہ کو الاٹ کی گئی متنازعہ زمین کیس پرپاکستان سپریم کورٹ نے بلوچستان حکومت کوشہریوں کے آئینی حقوق کے تحفظ کا حکم دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بنچ نے کوئٹہ رجسٹری میں بلوچستان ہائی کورٹ بینچ تربت کی جانب سے مورخہ 23 اکتوبر 2017 کو سی پی نمبر958/2013 میں دیئے گئے فیصلے کے خلاف دائر سول پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے وفاقی حکومت اور حکومت بلوچستان کو جامع بیانات جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ حکومت بلوچستان اس بات کو یقینی بنائے کہ شہری اپنے بنیادی حقوق جو کہ آئین کے آرٹیکل 23 اور 24 کے تحت انھیں فراہم کیے گئے ہیں ان سے محروم نہ رہیں اور آئین کے آرٹیکل 173 اور مذکورہ بالا قوانین کی خلاف ورزی میں کوئی الاٹمنٹ نہ کریں۔
حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ حکومت بلوچستان ان شہریوں کے حقوق کے خلاف کارروائی سے بھی اجتناب کرے جنھیں معاوضہ بھی نہیں دیا گیا ہے جبکہ ان کی اراضیات پر قبضہ کی کاروائی کی گئی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے درخواست نمٹاتے ہوئے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو حکم دیا کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ زمین کی الاٹمنٹ کی صورت میں آئین اور قابل اطلاق قوانین کی انکے زیر کنٹرول ادارے / محکمے کیخلاف ورزی نہ کریں۔
مذکورہ تنازعہ پاک بحریہ کے حق میں 10027-1-39ایکڑ زمین لیز کی بنیاد پر الاٹ کرنے سے متعلق تھا۔
الاٹمنٹ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو نے مورخہ 15 مئی 2009 کو ایک آرڈر کے ذریعے کی تھی متنازعہ زمین کوہ امام وارڈ، ائر پورٹ وارڈ اور شہید وارڈ میں واقع ہے۔
درخواست گزاروں نے بلوچستان ہائی کورٹ کے آئینی دائرہ اختیار پر استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ مذکورہ الاٹمنٹ/لیز کے مطابق زمین کا قبضہ دینے کے لیے انھیں و دیگر باشندوں کو زبردستی بے دخل کیا گیا۔
سیٹلمنٹ اتھارٹیز کی رپورٹیں جو کہ ہائی کورٹ کی جانب سے دیئے گئے مذکورہ متنازعہ فیصلے میں دوبارہ لکھی گئیں ان میں بھی اس بات کی تصدیق کی گئی کہ 4286 ایکڑزمین پرائیوٹ شہریوں کے قبضہ میں تھی جنھیں معاوضہ نہیں دیا گیا تاہم پھر بھی عدالت عالیہ نے اپنے اختیار کا استعمال کرنے سے انکار کر دیا۔