بلوچ قومی تحریک میں بی ایس او سے بی این ایم کا سفرنامہ
تحریر محمد یوسف بلوچ

0
613

قدرتِ کائنات نے جب انسان کی تخلیق کرکےایک آزاد اشرف المخلوق کی حیثیت سےروح زمیں پر اتار کر اجتماعی آزاد زندگی گزارنے کی تقلید کرکے اس سماج میں رہنے کی شرف بخشا۔جن میں بلوچ بھی اسی سماج کا حصہ ہےلیکن انگریزوں اور استعماری قوتوں نے اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کی خاطر عظیم انسانیت کو پارہ پارہ کرکے قوموں کو تاراج کرنے، لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی اپنا کر نوابوں سرداروں کی مفاداتی ملی بھگت سے بلوچ سرزمین کو قابضین کے حوالے کیا ۔
لیکن باجگزار نوابوں اور سرداروں کی باوجود بلوچ قوم نے سیاسی و عسکری مزاحمت کے ذریعے جدوجہد کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ ان تمام استعماری اقدام کو اپنی جغرافیہ، تہذیب سماجی اور قومی شناخت کے برخلاف سمجھ کر مسترد کرتے رہے ہیں 1839کوانگریزی قبضہ ہو یا پنجابی قبضہ۔ 1948 ،1958، 1962 اور 1973 تک بلوچ قوم نے مسلح گوریلا جنگیں لڑ کر اپنی آزادی کی خاطرکئی قیمتی جانوں کی نزرانہ دیئے اور قابض اپنے قبضہ کو دوام بخشنے کی خاطر تشدد سے لے کرجبر و مصالحت کے حربے استعمال کرتےرہے تاکہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو ختم کیا جاسکے لیکن ہمیشہ دشمن ریاست کو جزوی کامیابی حاصل ہوئی اور تمام تر طاقت آزمائی کی باوجود بلوچ قومی تحریک مختلف شکل میں موجود رہی۔تحریک کو ہر دور میں ایسے رہنماء نصیب ہوئے جنہوں نے پھر سے تحریک کو توانائی فراہم کرکےقومی آزادی کی تمنا کو اپنے لہو سے روشنی بخشا۔

بلوچ قومی تحریک کی آبیاری میں جہاں ایک طرف قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کی چند نظریاتی قائدین نے کلیدی کردار ادا کیا وہاں دوسری جانب 1962کوکراچی میں قائم ہونے والی بلوچ طلباء تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگنائزیشن کے ہم فکر دوستوں نے تحریک کو نظریاتی علمی تنظیمی اور عملی پختگی کو وسعت دینے کےلئے27 نومبر 1967 کو قومی تحریک کو اداروں کے بنیاد پرعوامی حمایت حاصل کرنےکیلئے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن BSOکی نام سے ایک طلباءَ تنظیم کی تشکیل کرکے اداراجاتی اور نظریاتی قوم پرستانہ سیاست کی بنیاد ڈالی جو اسی سال ہونے والے سیشن میں ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ بی ایس او کے چیئرمین منتخب ہوۓ ۔

بدبختی سے BSO اپنے قیام کے ابتدائی دنوں میں قبائلی سوچ رکھنے والےسیاسی باجگزارون کی نظریاتی اختلاف کی شکار ہوکر دو واضح نظریاتی دھڑوں میں تقسیم ہوگئی جبکہ یہ انتشہار و تقسیم در تقسیم بلوچ قومی تحریک میں ایک وبا بن گیا۔جو ہنوز جاری ہے۔ ڈاکٹر عبدالحئی کی قیادت میں بی ایس او پروسردار کہلائی اور جبکہ چیئر مین سیدان مری کی قیادت میں بی ایس او عوامی بنا۔ جو اینٹی سردار کہلایا گیا۔ بی ایس او اینٹی سردار عوامی کو قادربخش نظامانی کی حمایت حاصل تھی۔ان اختلافات کے باوجود بی ایس او کے دونوں دھڑوں نے بلوچ سیاست میں مختلف نظریہ کی بنیاد پر اپنا اپنا کردار ادا کیا اور پروسردار گروپ جو نیپ کی حمایتی تھی وفاق پاکستان کی نیابت میں رہتے ہوئے پانچ وحدتوں کی نمائندگی کرکے ون یونٹ ایوبی آمریت اور صوبائی خودمختاری کی پیش نظر اپنا پالیسی بنائے اوربعد میں پارلینمنٹ کا حصہ بے اور بی ایس اوراینٹی سرادار کے دوستوں نے نظریہ بلوچ قومی وحدت حق خود ارادیت باشمول حق علیحدئگی اور غیر پارلیمانی سیاست کو اپنا سیاسی حدف بنا کر بلوچ قوم کو شعوری طور پر منظیم کرنے کی جدوجہد کی بنیاد ڈالی ۔

اور اِسی نظریہ پر شھید فداحمد کی مدبرانہ قیادت میں دوستوں کی کوشیشوں سے 1984کی سیشن میں بی ایس او کےدونون دھڑوں نے انضمام کرکے1986کی سیشن میں قومی پارٹی نہ ہونے کی ضرورت محسوس کرکے قومی پارٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا جبکہ اس دوران بلوچ گراؤنڈ میں قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کی متبادل کوئی سیاسی قومی پارٹی کی وجود نہ تھی ۔اسی نظریہ کو BSO کے سابقہ کیڈروں اور سنئیر دوستوں نے اپنا حدف بنایا جسکی وجہ سے BSO پھر اسی سیشن میں پھر مفاداتی لیڈروں کے سازش سے اختلافاتی تلوار کی شکار ہوا۔اور بی ایس او کی باطن سے کئی دھڑیں وجود میں آئے اور پارلیمانی لیڈروں کی نرغے میں آکر قومی حدف سے منکر ہوئے۔

۔BSOعوامی کے نظریاتی کیڈر اور سنیئردوست آپنے نظریہ کو برقرار رکھکر قومی پارٹی کی تشکیل کی عمل کو جاری رکھا BSOعوامی ایک طالباءتنظیم ہوتے ہی روز اول سے عوامی سطح پر اپنے نظریہ کے تحت جدوجہد کرتےرہے BSO عوامی اکثر اپنے موقف و نطریاتی عمل کی وجہ سے عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا BSO کے دوسرے گروپس پارلیمانی سیاست کا حصہ بنے۔اور بہت جلد زمین بوس ہوئےاپنے قول وعمل سے BSOعوامی نے بلوچستان میں سیاسی قومی پارٹی نہ ہونے کے خلا پر کرنے کی کامیاب کوشش کی اس قدر مقبول ہوئی کہ مزدور سے لےکر عام خواتین اور بچوں سے لے کر بوڑھوں تک سب BSO عوامی کے پروگرام میں شامل ہوکر خود کو BSO عوامی کا ممبر سمجھتے رہے۔1970میں پاکستان کے عام انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی نیپ نے طاقتور قبائلی شخصیات کے مقابلے میں ڈاکٹر حئی بلوچ کو اپنا انتخابی امیدوار چنا اور پارلیمٹ تک پہنچایا مگر 70 کے الیکشن کے بعد اپنے زندگی کے آخری دنوں تک 1988سے لیکر2018کےالیکشن تک پھرڈاکٹر حئی کوئی پارلیمانی سیٹ جیت نہ سکا۔

۔1970 میں ڈاکٹرحئی اور نیپ کی کامیابی ومصلحت پسندی اور وفاق پرستانہ سیاست کے باوجود نیپ قادیں کی ہر جمہوری اور پرامن کوشش کو پاکستانی ریاستی اہلکاروں نے فوج کشی اور طاقت سے جواب دیا۔ 70کی دہائی میں بلوچ قوم نے بارکان سے لےکرجیمڑی تک مجبوراْ نیپ کی موجود قیادت کی ہر فیصلے کا بھر پور ساتھ دیا لیکن یہ قائدین ادارہ جاتی بنیاد پر تنظیم سازی اور عوام میں موبلائزیشن نہ کر سکے جس کی وجہ سے بلوچ قوم کے درمیان علاقائی بنیاد پر نظریاتی وسیاسی خلیج پیدا ہوا اس لیے جب نیپ کی حکومت ختم کی گئی تو پاکستان کے خلاف مسلح گوریلہ مزاحمت شروع ہوئی تو اس کے اثرات صرف چند قبائلی علاقوں تک محدود رہی اور نیپ میں شامل غیرملکی بلوچوں کی سازش اور قبائلی قاہدین کی عدم برداشت کے رجحان اور نظریاتی اختلاف کی وجہ سے شہید اکبر خان بگٹی کو بھی مخالف صف میں دھکیلا گیا جس سے بلوچ قوم اور قومی تحریک کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا۔

قائدین کے مصلحت پسندانہ کردار اور باجگزاری کے باوجود بلوچ قومی شناخت کو پاکستانی ریاست کے حاکموں اور فوج نے ہمیشہ مسترد کیا اور ان کی حق حاکمیت کی خواہش کو ہر سطح پر ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اپنے 1948 کی استعصالی پالیسی کے مطابق بلوچ نسل کشی کو تسلسل سے جاری رکھا تاکہ بلوچ قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا کر بلوچستان پر اپنے جابرانہ قبضے کو دوام بخشا جا سکے۔
نیپ جو بلوچ نظریاتی پارٹی نہ تھی لیکن اس وقت کے قدآور بلوچ رہنماء خیر بخش مری عطاء اللہ مینگل غوث بخش بزنجو، گل خان نصیر اور دیگر اکابرین نیپ کا حصہ تھےاورجب کہ BSOحئ بھی نیپ کی اتحادی تھا۔ مگر اں قاہدیں میں شامل اکثر مفاداتی لیڈروں نے عوامی اعتماد کو ٹھس پہچا کر مراعات کی جستجو میں پارلیمانی چکرلگا تے رہے۔ بلوچ قوم ان لیڈروں سے بہت امیدیں رکھتے تھے۔ابتداء میں انھیں شہید اکبر خان بگٹی کی مکمل سپورٹ حاصل تھی بعد میں بلوچ قائدین نے اختلافات پیدا کرکے وہ نیپ کی مخالفت میں بھٹو رجیم کے قریب ہو گئے۔

نیپ کے کردار و عمل اور قومی تحریک آذادی کی نظریہ سے انحراف سے بلوچ سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے اور بلوچ قوم نے شعوری سیاست کی دہلیز پر قدم جما کر ان پرسودہ قبا ئلی مصلحتی لیڈروں کومستردکرکے اُن کو
وفاق پرستوں کی فہرست میں شامل کر لیا۔

نیپ کا قیام 1957 میں اس وقت کے مغربی پاکستان
میں عمل میں لایا گیا۔ بنگال کے سیاستدان عبدالحمید خان بھاشانی کی سربراہی میں تشکیل کردہ اس پارٹی نے پاکستانی وحدت میں تمام محکوموں کو یکجا کر کے چند بلوچ قائدین کو بھی پاکستانی ملٹری رجیم کے خلاف عوامی طاقت کو متحرک کرنے میں مدد دی۔ نیپ کی تحریک کی ناکامی کےبعد بنگالی قوم کو یہ حساس ہوئی کہ پنجاب کی غلامی سے نجات کا واحد راستہ مکمل آزادی ہےجسکا رہنمائی شیخ مجیب نے70کی دہائی میں کی لیکن بلوچستان میں غیرسیاسی رجحان اور قائدین کےکمزور نظریاتی موقف اور مراعات یافتہ ذہنیت کی وجہ سے جب 1971 میں پاکستان کی ہندوستان سے جنگ ہارنے بنگلہ دیش کی قیام کے بعد بھی بلوچ قائدین نیپ کے دامن سے جڑے رہے اور پاکستانی وفاقیات اور سالمیت کی وکالت کرتے رہے۔

انھوں نے بلوچستان کی مکمل آزادی کی تحریک شروع کرنے کی بجاۓ پرامن سیاست کا راستہ اپنا کر پاکستانی پارلیمنٹ کی حصے بنتے گئےحالانکہ شہید اکبر خان بگٹی واحد بلوچ رہنماء تھے جنھوں نے بنگلادیش تحریک آزادی کے دوران اپنے خواہش کا اظہارکیاکہ اب بلوچ قوم کو بھی پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کا تحریک شروع کرنےکی سنہری موقع ہے۔اور بنگال کی جاری تحریک آذادی کی دوران ڈھاکہ جاکر شیخ مجیب سے پاکستان کے حلاف مشترکہ تحریک آذادی چلانے پر اتفاق کیا۔ لیکن نیپ میں شامل بلوچ قائدین نے اسکی پرزور مخالفت کی۔اور اکبر خان بگٹی کو بلوچ قومی نمائندہ تسلیم کرنے سے انکار کیا۔حالانکہ اکبر بگٹی نے1971میں اندراگاندی کی حمایت میں کوئٹہ سے ایک پروقار ریلی بھی نکالی جو بلوچ قوم کی جانب سے یکجہتی کا پیغام تھا۔

1972 میں بلوچستان میں پہلی نام نہاد قوم پرست حکومت قائم ہوئی جس کے سربرہ عطاءاللہ مینگل منتخب ہوئےاور گورنر غوث بخش بیزنجو بنے۔

اس حکومت کے نمایاں اقدامات درج ذیل تھے:
1۔ بلوچستان کی مقامی حکومت کے معاشی استحکام اور اس کو خودکفیل بنانے کے لیے سرداری ٹیکس یعنی ششک کی اصلاحات ۔جو بعد میں بھٹو نے ان سرداروں کے حلاف استعمال کرکے اس ششک کو بلوچستان میں ختم کردیا۔

2-نیپ حکومت کی کارناموں میں یہ بھی شامل ہے کہ غوث بخش بیزنجو سوشلسٹ نظریہ رکھتے ہوئے گورنر بن کر اپنا پہلا سرکاری دورہ ایران کرکے ساواک سے وفاداری کا تحفہ سونے کا تلوار وصول کرکے بعد میں اپنا انتخابی نشان بنایا حالانکہ سوشلسٹ ہونے کے ناطے پہلا دورہ سویت یونین کا کرنا چائیے تھا۔

1973 کو عطاءاللہ مینگل اور بیزنجو کی حکومت ختم کی گئی ۔عطاءاللہ مینگل غوث بخش بزنجو و خیر بخش مری اور دیگر قائدیں کو گرفتار کرکے حیدرآباد جیل میں ڈالا گیا۔۔ نیپ کی حکومت کا خاتمہ ریاست پاکستان کی طرف سے یہ پیغام تھا کہ وہ بلوچ قوم کی خودمختاری اور قومی پہچان کو کسی بھی شکل میں قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔ نیپ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بلوچ قوم نے پھر مسلح گوریلہ جنگ کا راستہ اپنایا۔ افغانستان میں سویت یونین کی حامی حکومت میں جلاوطں بلوچ لیڈروں اور دنیا میں سویت یونین کی موجودگی نے بلوچستان میں سیاسی شعور کو پروان چڑایا۔افغانستان میں موجود جلاوطن بلوچ قائد خیر بخش مری کی سرکلز نے یہاں بلوچستان میں سیاسی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ بلوچ قائد شہید فدا احمد بلوچ بھی اس سرکل سے متاثر تھے جہاں انھوں نے حالات اور قبائلی شخصیات کی تحریک پر کردار و اثرات کا بغور مطالعہ کرتے ہوئے نطریاتی و تنظیمی اداروں اور قومی پارٹی کی ضرورت محسوس کرکے بلوچ نظریاتی دوستوں کوشعوری طور پر منظیم کرنا شروع کیا۔

کیونکہ اس دوران یوسف عزیز مگسی عبدالعزیز کرد کے وفات اور قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے زوال کے بعد کوئی متبادیل نظریاتی پارٹی نہ تھی سابقہ لیڈراں پاکستانی وحدت اور پارلیمانی سیاست کی دہلیز میں براجمان ہو کر باجگزاری اور مصلحت پسندی کو اپنا شیوہ بنایابلوچ قومی سیاست و نظریہ یوسف عزیز مگسی اورعبدالعزیزکرد کے فلسفہ آزادی سے منحرف ہو گئےتھے۔

24دسمبر 1987کو BSO عوامی کے دوستوں اور سابقہ لیڈران نے شہید فدا احمدکی کوششوں سے بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کو یوسف عزیز مگسی اورعبدالعزیزکرد کی نظریہ اورقلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کی فلسفہ آزادی کی روشنی میں تشکیل دے کر تحریک کی بنیاد رکھی۔ اس دوران ڈاکٹر عبدالحئ PNP سےالگ ہوا تھا دوستوں کی سرکل میں شامل ہو کرقوم پرستی کے لبادے میں BNYM کے کنوینر منتخب ہوا۔ مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی میں شہید فداحمد ،ڈاکٹر مالک ،منظو گچکی،اکرم دشتی مولابخش بہرام خان اور اسد اللہ شامل تھے۔ جس کے بعد سردار آختر مینگل بھی BNYM میں شامل ہوکر قومی تحریک کا حصہ بنا۔ جو شہید فدا کی شہادت کے بعد BNYM کی نظریہ سے منحرف ہوکر پارلیمٹ پر براجمان ہوئے نظریہ بیزنجو وفاقیت مصلحت پرستی و اقتدار کو اپنا مقصد بنایا۔۔

شھید فدا حمد کو اسی سازش کی تحت 2مئی 1988 میں آپنی کتابوں کی دکان میں شھید کرایا گیا کیونکہ فداحمد پارلیمانی سیاست میں حصہ داری کی سخت مخالف تھا ان مراعات یافتہ مصالحتی چالبازون نے فدا جان کی شھادت کو آپنا پارلیمانی سیاست کا سیڑھی بناکر نواب اکبر حان سےاتحاد کرکےBNA کے فلیٹ فارم پر 1988کو پاکستانی پارلیمنٹ کی زینت بنےجس کے بعد 1989 کے پارٹی کی پہلی۔کونسیشن منعقد کرکے ان پارلیمینٹ پرستوں نےBNYM کے بجائے بلوچستا ن نیشنل موؤمنٹ کا نام رکھدیا۔ سیشن مین ڈاکٹر حئی صدر اوراختر مینگل نائب صدر منتخب ہوئے۔

بعد میں عطا ءاللہ اورآختر مینگل کی عدم برداشت اور عناء پرستی کی وجہ سے BNA اور اکبر حان سے اختلافات پیدا ہوئی اور 1990میں اسی اختلافات کی تلوار سے بی این ایم کو دو گروپوں میں تقسیم کرکے BNM حئی گروپ دوسرا مینگل گروپ بنے۔BSO بھی ان گروپوں میں تقسیم ہوا۔

بلوچستان کی سیاست مندرجہ بالا نشیب وفراز سے گزرتے ہوئے بلوچ انقلابی کارکنان نے محسوس کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنی آزادی کی تحریک کو واضح نظریاتی بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔
جب نواب خیر بخش مری اپنے ساتھیوں کے ساتھ جلا وطنی ختم کرکے افغانستان سے واپس بلوچستان تشریف لائے تو اس وقت اپنے قیادت میں حق توار کے نام سے ایک نظریاتی فلیٹ فارم کی تشکیل کرکے بلوچ نوجوانوں کو شعوری اسٹڈی سرکل دیکر قومی تحریک کو بنیاد فراہم کرکے کئی نوجوانوں کو شعوری ونظریاتی طور پر تیار کیا ۔جو آج بلوچ قوم کی جاری تحریک آزادی کو گوریلہ اور سیاسی جدوجہد کو تنظیمی اور نظریاتی خطوط پر منظیم ہونے کا سبب بنے۔ُِ اس بلوچ قومی تحریک کو اس وقت پذیرائی ملی جب 2000کو ازسر نو بلوچ قومی تحریک آزادی کو منظم اور مستحکم طریقہ سے جاری رکھنے کا جدوجہد شروع کیاگیا۔تو شھید فداحمد کی نظریاتی ساتھیوں میں ڈاکٹر اللہ نذر اور شہید غلام محمد نے اپنے نظریاتی انقلابی ورکروں کے ساتھ مل کر بی این ایم اور بی ایس او کو پاکستانی پارلیمانی مصلحتی لیڈروں کی چنگل سے نکال کر اپنے اصلی حدف بلوچ قومی تحریک آزادی پر گامزن کرکے غلامی اور قبضہ گیریت کے خلاف جدوجہد کو اپنا نصب العین بنایا۔اور اس تحریک کو قبائلی روایات سے نکال کر عام بلوچوں کی گدانوں تک پہچایا جبکہ اس تحریک میں BSO آزاد خیر بخش مری اور اکبر حان بگٹی کی بھی اہم رول رہاہے۔

جب2003 کو بلوچستان نیشنل موومنٹ اور بی این ڈی پی کے اتحاد کے بعد نیشنل پارٹی کی تشکیل ہوئی تو شہید غلام محمد بلوچ نے اس نئی پارٹی کے قومی تحریک سے منحرف پروگرام کو مسترد کر کے بلوچستان نیشنل موومنٹ کو اپنے اساس کے ساتھ قائم رکھنے کا فیصلہ کیا۔
8 اکتوبر 2003 کو بی این ایم کے آرگنائزر شہید غلام محمد بلوچ اور ڈپٹی آرگنائزرشہید لالامنیر بلوچ نے دوستوں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا بلوچستان نیشنل موومنٹ برقرار ہے ہم اس کے بی این ڈی پی سے انضمام کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔

اس پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا آج سے 15 سال قبل 1987ءکو BSO سے فارغ شدہ نطریاتی دوستوں پر مشتمل نظریاتی سیاسی فلیٹ فارم BNYMکے نام سے قائم کی تھی جو شہید فدا احمد کے شہادت کے بعد ان پارلیمان پرست لیڈروں نے 1989ء میں BNYM کی نام تبدیل کرکے بلوچستان نیشنل موؤمنٹ رکھا۔ BNYM. کے قیام کو BSO کی طویل بلوچ قومی جد و جہد کا نظریاتی تسلسل قرار دیتے ہوئے بلوچ قومی تحریک برائے آزادی کی بنیاد پر بلوچ قوم کو پنجاب کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے جد و جہد کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا۔

اس کے لیے فدا احمد بلوچ کی مدبرانہ قیادت میں غیر مصالحت پسند نظریہ کےحوالے سے حکمت عملی تیار کی گئی تھی 2 مئی 1988ءکو ان کی شہادت کے بعد جو لوگ ان کے سیاسی کاروان کے وارث بن بیھٹےانھوں نے 1988 میں انتخابات میں حصہ لے کر بلوچ قومی سیاست کی بساط کو لپیٹنے کا منصوبہ شروع کیا اور بلوچ قوم کو دھوکا دے کر کہا کہ پارلیمانی سیاست کو بطور حربہ استعمال کریں گے اگر اس میں کامیابی نہیں ہوئی تو اس کو مسترد کیا جائے گا اس کے بر خلاف اس گروپ نے پارلیمانی سیاست کو چند مراعات کے حاطر اپنا نصب العین بنا کر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات پر پورا اترنے کی روشن اپنا لیا پنجاب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے وفاقی نظام اور 1973ء کی اُسی آئین کی وکالت شروع کر دی جسے بلوچ قوم نے پہلے مسترد کیا تھا۔

انھوں نے کہا گوادر پورٹ کے ذریعے بلوچ قوم کو اقلیت میں تبدیل کرنے اور چھاؤنیوں کے قیام کے ذریعے بلوچ قوم کے خلاف منصوبے بنائے گئے ان خطرات کے پیش نظر بلوچ قوم کی قومی آزادی کی جد و جہد کو وسعت دینے کی بجائے اس منحرف گروہ نے پنجاب کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے انضمام اور ملک گیر سیاست کے نام پر BNM جیسی انقلابی قوت کو سبوتاژ کرنے کی سازش کا آغاز کیا ۔ BNM کے کارکنان نے ان سازشوں کا ہمیشہ مقابلہ کیا مگر اس گروہ نے پارٹی کے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انضمام کا فیصلہ کیا چونکہ یہ گروہ آئین شکنی کا مرتکب ہو چکا ہے اس لیے مذکورہ گروہ کا آج سے BNM کے ساتھ کوئی تعلق نہیں
۔
شہید غلام محمد نے اس تاریخی پریس کانفرنس میں مزید کہا ہم BNM کی آزاد خودمختار حیثیت کو برقرار رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے پارلیمانی طرز سیاست کو بلوچ دشمنی سمجھ کر یکسر مسترد کرتے ہیں اورجدوجہد کے دیگر ذرائع‘ استعمال میں لائیں گے اس کے علاوہ بلوچ قومی تحریک کے مقاصد کے حصول کے لیے قومی کردار کی حامل سیاسی قوتوں کے ساتھ ہم آہنگی و یکجہتی پیدا کی جائے گی اور بلوچ سماج کے مثبت عناصر کو متحرک کر کے قومی قوت کی تشکیل کے لیے جد و جہد بلوچ وطن ، بلوچ ملکیت اور بلوچ قومیت کی تعمیر نو ہمارا نصب العین ہوگا۔
آپ نےBNM کے کارکنوں اور بلوچ قوم سے اپیل کی کہ وہ اجتماعی قوت کے ذریعے بلوچ قومی تحریک میں فعال کردار ادا کریں۔
اس موقع پر 12 رکنی عبوری آرگنائزنگ کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا۔شہید غلام محمد مرکزی آرگنائزر،ڈپٹی مرکزی آرگنائزر شہید لالامنیر جبکہ فضل بگٹی ، عبدالقادر سمالانی، حسن دوست، نصیراحمد ،عصاءظفر ،حاجی اکبر، نصیر صالح، سخی داد، جہانگیر ایڈووکیٹ اور اے ایس احمد اس آرگنائزنگ باڈی کے ممبر چنے گئے۔ سازشی انضام کے بعد 17 اکتوبر 2003 ء کو بی این ایم کی قیادت نے گوادر میں چار جماعتی اتحاد کے جلسے میں شرکت کر کے اپنی پارٹی موقف کی نمائندگی کی۔

30اپریل تا2 مئی 2004ءکو سیشن کے بعد غیر پارلیمانی سیاست اور تحریک آزادی کے واضح موقف کے ساتھ B.NM نے اپنے نئے انقلابی سفرکا آغازکیا۔اس سیشن میں شہید غلام محمد صدر، نائب صدر شہید لالامنیر، ،سیکر یٹری جزل ایڈوکیٹ رحیم بلوچ ڈپٹی سیکریٹری جنرل شہید ایڈوکیٹ انور بلوچ، لیبر و کاشتکار سیکر یٹری حسن دوست بلوچ، فنانس سیکریٹری حاجی نصیر اور یونس گنگو پریس سیکریٹری منتخب ہوئے ۔ جبکہ12رکنی مرکزی کمیٹی کے لیے کامریڈ مولا داد، ، جہانگیر ایڈوکی ،اے ایس احمد، امام بخش ،شاہ زمان مری ،میجر محمد علی ، رحمت اللہ شوھاز ،عصمت ، قادر ایڈوکیٹ قادرسمالانی عصاء ظفر او نازیہ بلوچ منتخب ہوئے۔ الیکشن کمیٹی کے چیئرمین واجہ محمد حسین نے نومنتخب کابینہ سے حلف لیا۔

2 مئی 2004 کوشہید فداحمد کی سولہویں برسی کوشال میں ایک عوامی جلسے میں پارٹی کی تقریب حلف برداری ہوئی جس میں پارٹی کے صدر شہید غلام محمد ، نائب صدر لالامنیر اور سیکریٹری جنرل رحیم ایڈ وکیٹ سمیت جمہوری وطن پارٹی کے قائدین ہمایوں مری، امان اللہ کنرانی، شفیع دانش، شکیلہ اور دیگر نے خطاب کیا۔

شہید غلام محمد بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا ہم بلوچ قوم کے مفادات کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کر یں گے ۔ بلوچ قوم کی آزادی تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔ پنجاب کے حکمران بلوچ ساحل کا سودا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ بلوچستان کے حقوق کے نعرے لگانے والوں نے زمینوں کی فروخت میں دلالی کا کام کیا۔ بلوچستان اسمبلی میں فوجی چھاؤنیوں کی تعمیر کے خلاف منظورکردہ قرارداد کواسلام آباد کے دباؤ میں آ کر ایک دوسرے قرارداد کے ذریعے ذائل کر دیا۔

آپ نے کہا شروع سے لے کر آج تک بلوچستان میں مزاحمتی تحریک جاری ہے جس کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی لیکن اس کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکل سکا۔ ہمیں اس وقت پنجاب کے قبضے سے اپنے آپ کو نکالنا اورخودمختار بنانا ہوگا کیونکہ بلوچ قوم کی سرزمین پرحق ملکیت اسکا حق ہے جس کے لیے جہد و جہد جاری رکھیں گے۔

آپ نے پاکستان کے پارلیمنٹ کو مستردکرتے ہوئے کہا موجودہ نظام پنجاب کے مفادات کے ترجمانی ہے ہم خالص بلوچ نظام پارلیمنٹ چاہتے ہیں

بی این ایم کے قیام سے پہلے ہی ادارہ جاتی بنیاد پر تنظیم سازی کے عمل کا آغاز ہو چکا تھا۔ کیڈرسازی کے لیے باقاعدگی سے سرکلز کا اہتمام کیا جا تا تھا تا کہ علمی اور انقلابی بنیاد پرسیاسی کارکنان کی تربیت کی جاسکے لیکن BNM. سے پہلے بلوچستان کی آزادی کا مطالبہ مبہم تھا۔ حق خودارادیت جیسے اصطلاحات استعمال کیے جاتے تھے جس کا مفہوم اندرون خانہ بلوچستان کی آزادی لی جاتی تھی لیکن بلوچ نیشنل مؤمنٹ کے قیام کے بعد عوامی سطح پر پہلی بار بلوچستان کی مکمل آزادی کا مطالبہ پیش کیا گیا۔

بلوچ نیشنل مو ؤمنٹ سے پہلے بلوچ قومی سیاست کمیونسٹ نظریہ سے بیحد متاثرتھی لیکن بی این ایم نے قوم دوستانہ سیاست کے معیار اور طریقہ ہائے کار کو وضع کیا اور بلوچ سیاست کا محور طبقاتی جدوجہد کی بجائے قومی آزادی کا جدوجہد قراردیا۔
اس بارے میں شہید واجہ غلام محمد کا کہنا تھا، بلوچ سیاسی کارکنان کو دنیا کے تمام سیاسی افکار کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے لیکن ان کا میدان عمل بلوچستان ہے اور ان کو بلوچ قوم کی سوچ تبدیل کرنی ہے اور انھیں قومی سیاست کی طرف راغب کرنا ہے اس لیے ہمارے سیاسی کارکنان کو سب سے پہلے اپنی قومی نفسیات، مسائل اور قومی تاریخ کو سمجھنا چاہیے دنیا کا کوئی بھی طبیب مریض کی بجائے کسی دوسرے کا نبض پکڑ کر اس کے مرض کا علاج نہیں کر سکتا ہماراہاتھ بھی بلوچ قوم کے نبض پر ہونا ضروری ہے ۔
سن 2004 ء کے سیشن میں پارٹی کا نام بلوچستان نیشنل موومنٹ آپنےB.N.M سےاس لئے تبدیل کر کے بلوچ نیشنل موومٹنٹ BNMرکھ دیا گیا تا کہ بی این ایم کی تنظیم میں بلوچستان سے باہر رہنے والے بلوچوں کو بھی شامل کر کے تحریک آزادی کو طاقت بخشی جا سکے ۔ بلوچ نیشنل موومنٹ کے قائد شہید واجہ غلام محمد بلوچ کی قیادت میں بلوآچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاسی محاذ پر نہایت بیبا کی اور واضح موقف کے ساتھ بی این ایم کے کارکنان میدان عمل میں نکلے اور بلوچستان کے کونے کونے اور دنیا بھر میں موجود بلوچوں تک آزادی کا پیغام پہنچایا۔
سن 2004 کے سیشن کے فورا بعد پارٹی کے خلاف ریاستی طاقتیں ا ور پارلیمانی لیڈران بھی متحرک ہوگئیں ۔اور پہلی بار فنانس سیکریٹری حاجی نصیر مند سے اغوا کر کے کئی مہینوں تک لاپتہ کردیا۔
3 دسمبر 2006 کو پارٹی کے صدر شہید غلام محمد اور شہید اکبرخان بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی کے رہنماء شہید شیرمحمد سمیت کراچی میں ایک مظاہرے کے دوران گرفتاری کے بعد جبری لا پتہ کر دیےگئے۔کئی مہینے خفیہ ٹارچرسیلز میں اذیتیں دینے کے بعد 20 ستمبر 2007 کو خضدار تھانے میں ان کی گرفتاری ظاہر کی گئی اور 21 ستمبر 2007 کو انہیں تربت سٹی تھانے میں منتقل کیا گیا جہاں سے انہیں 10 اکتوبر 2007 کو ضمانت پر رہائی ملی۔شہید غلام محمد بلوچ اور کئی کارکنان کو جبری لا پتہ کیے سے وقتی طور پر پارٹی کی کارکردگی متاثر ہوئی ۔آپ کی جبری گمشدگی کے دوران پارٹی میں شامل نظریاتی کیڈرز شہید ڈاکٹرمنان، ڈاکٹردین محمد،ڈاکٹرخدابخش، ڈاکٹرنسیم اور خلیل بلوچ نے پارٹی کو دوبارہ منظم اور متحرک کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
شہید غلام محمد پر جب پہلی مرتبہ جبری گمشدگی کے بعد کئی جھوٹے مقدمات میں ملوث کر کے منظر عام پر لائے گئے

رہائی کے بعد آپ نے فوری طور پر آپنے سیاسی سرگرمیان جاری رکھے۔
2005 کو مند مین ایک پرُوقار عوامی
ریلی کی قیادت کرنے کی پاداشت میں قبضیہ گیر ریاستی فورسز نےپاریمانی دلالوں کی شہ پر آپ شھید چیئرمین کے خلاف مقدمہ ATC گورٹ میں دائر کرکے آپ کو اشتہاری قراد دیکر مکران کی سیاست سےدور رکھا۔ جس کی وجہ سے آپ نے کراچی کو آپناسیاست کا محور بنایا۔ اورکراچی کے بلوچون کو بلوچستان کی تحریک آزادی سےآشنا کرکے شعوری طور پر متحریک بھی کیا۔ جو بعد میں بی این ایم کاگہوارہ بنا۔ شھید غلام محمد نے کراچی میں سندھی قوم پرستوں سے ناطہ چوڑ کر بلوچ وسند ھی یکجہتی قائم رکھا۔جس سے کراچی میں تحریک کو کامیابی ملی۔

۔10اکتوبر 2007 میں رہائی کے بعد 2008کو شھید چیئرمیں غلام محمد کی مخلیصانہ قیادت میں ملیر کراچی میں بلوچ نیشنل موؤمنٹ کی کامیاب آٹھواں قومی کونسل سیشن منعقد کیا گیا۔جس کے بعد ایک نئےجزبے کے ساتھ پارٹی دوبارہ میدان عمل میں انقلابی پروگرام کو جاری رکھتے ہوئے بلوچستان بھر میں بلوچ قوم کو متحر ک کرنا شروع کیا۔
شھید غلام محمد نے اس کونسیشن میں شامل دوستوں سے محاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ بی این ایم کو تن تنہا میں مستحکم اور منظیم نہیں کرسکتا۔بی این ایم آپ ورکروں اور بلوچ قومی پارٹی ہے ہمیں مل کرپارٹی کو مظبوط کرنے کیلئے محنت اور لگن کے ساتھ جدوجھد کرنا ہے ۔ میں جانتا ہوں کہ یہ ایک گھٹن سفر ہے اس راستے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ جس ذمہ داری کو ہم نے اُٹھایا ہے ہمیں اس کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔

شھید غلام محمد کے خلاف قبضہ گیر ریاستی اداروں نے بیک وقت تربت ‘کراچی و شال میں کئی جھوٹے مقدمات دائر کئے تھے آپ کو عدالتی چکروں میں مصروف رکھنا تھا۔ تاکہ آپ غلام محمد پارٹی کے پروگراموں اور اس جاری بلوچ قومی تحریک میں فعال کردار ادا نہ کر سکیں ۔

چونکہ شھید غلام محمدبلوچ نے آپنے اس مختصر سیاسی سفر میں اکثر اوقت پاکستانی عدالتوں کی پیشیون میں گزارے ۔مگر ان پیشیوں اور مقدمات کے پرواہ کئے بغیر آپ نےدن رات ایک کرکےبلوچ قومی تحریک اور پارٹی کی انقلابی پروگرا م کو بلوچستان کے کونے کونے ہر گدان میں پہنچا کر بلوچ قو م کو شعوری طور پرمتحرک کرکے تحریک کی آبیاری کی۔

۔جب دشمں ریاست آپنے مقصد میں ناکام ہوکر غلام محمد بلوچ کے سیاسی سر گرمیوں کو آپنی جبر اور مظالم سے کاؤنٹر نہ کرسکا۔ تو ریاستی ادارے آپنے پالیمانی دلالوں کے ملی بھگت سے آپ چیئرمیں شھید کو راستے سے ہٹا نے کی سازش رچاکر آپ کو دوبارہ گرفتار کر کے اغواہ کرنے کی منصوبہ بندی پر مصروف ہوئے۔ اور بعد میں اس کو پائے تکمیل تک پہچایا۔

3اپریل2009ء کوشھید واجہ غلام محمد بلوچ شھید لالہ
منیربلوچ اور شھید شیر محمد بلوچ کو ریاستی حفیہ اداروں اور فورسز نے تربت میں اُن کی وکیل کے چمبر سے ATC عدالت کے سامنے دن کے 12بجےجبری آغواہ نما گرفتار ی کے بعد لاپتہ کر دیا گیا۔ اور 9اپریل2009 کے صبح سویرے ریاستی فورسز اور ڈاکٹروں کی ٹیم نے ان تینوں بلوچ رہنماؤں کی مسخ شدہ لاشیں مرگاپ سےبرآمد کیئے جو آغواہ کے دوران ٹارچر کرکے لاشیں مسخ کرنے کے بعد تربت سے 15کیلو میٹر دور مرگاپ کے مقام پر پھنکے گئے تھے پھر اسی صبع شھید آصف اور BNM کےدوستوں کو قومی تحریک کی پاداشت میں اس امید پر تحفےدیےگئے کہ اب بلوچ قومی تحریک اور BNMکی جدوجھد کو سابقہ تحریکوں کی طرح ریاست نے زمیں بوس کردیا مگر یہ قبضہ گیر ریاست اور اُں کی پارلیمانی باجگزار چمچوں اور دلالوں کی بھول تھی۔ کیونکہ ان کی شھادت نے اس تحریک اور آذادی کو مذید طاقت بخشا۔
شھید غلام محمد اور ساتھیوں کی شھادت کے بعد ریاست نے سابقہ تحریکوں کی طرح اس بلوچ قومی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کیلئے بلوچستان میں ریاستی جبر و تشدد کی بازار گرم رکھا اس جبر وریاستی تشدد کی ڈر و خوف سے BNM کی 2008 کی کابینہ کےچند سنیئر دوستوں نے مصنوعی اختلافات کو جواز بنا کر BNM کو کمزور اورتقسیم کرنے کی ریاستی منشاء کو پائے تکمیل پہچانے کی کوشش کرکے پارٹی سے کنارہ کش ہوئے۔اور BNM کو تقسیم اور کمزور کرنے کی ناپاک کوشش پرعمل پیراہوئے مگر یہ عناصر ریاستی ایجنڈے میں اُس وقت ناکام ہوئےجب شھید غلام محمد کے کابینہ کے چند نظریاتی ساتھی چیئرمیں خلیل بلوچ اور ڈاکٹر منان جان کی مخلصانہ کوششوں سے آپنے انقلابی اور نظریاتی کارکنوں کے ساتھ ملکر پارٹی کو منظم و مستحکم کرنے میں دن رات محنت کرکے 2010 ء میں جھاؤ کے مقام پراس اختلافی ادوار اور ریاستی جبرو تشدد کے پرُ حطر سائے میں ایک پُر وقار اور کامیاب قومی کونسل سیشن منعقد کرکے پارٹی کو آپنے حدف پر متحرک کرنے کا ذمہ داری لی۔

اور چیئر میں خلیل بلوچ کی کاروان میں شامل دوستوں نے 2010 سے لیکر 2022کے قومی کونسیشن تک آپنے کمزوریوں اور ریاست جبر کے باوجود پارٹی کو ادارجاتی بنیادوں پر متحرک کرنے کی ہمیشہ آپنے ذمہ داریوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے رہے۔جو ایک حد تک کامیاب بھی ہو ئے ہیں۔اس 11 سالہ جدوجھد کی سفر میں چیئر میں خلیل کے کاروان کے کئی ہمسفر مرکزی ساتھی سمیت انقلابی ورکرز شھید اور کئ نظریاتی ہمسفر ساتھی ریاستی ٹارچر سیؒلوں میں عرصے دراز سے ٹارچر اور تشدد کی آج تک آماچ ہیں۔جن میں ڈاکٹر دیں محمد اقبال بلوچ عبدالغور بلوچ رمضان بلوچ اور کئی سینکڈوں دوست شامل ہیں۔

ابتدائی طور پر بی این ایم کی اساسوں میں تیں نکات شامل تھے (1)۔بلوچ قومی آزادی (2) غیر پالیمانی سیاست (3) مسلح تنظیموں اور جنگ آذادی کی سیاسی اخلاقی حمایت) ان نکات پر بی ایں ایم نے آپنی انقلابی سفر کو آگے بڑھنے کی جدوجھد شروع کی۔ یہ اساس پارٹی کے پروگرام کا احاطہ کرنے کیلئے واضع کیاگیاتھا۔۔ جن کو کوئی قیادت یا قومی کونسل سیشن حتم نہیں کر سکتا۔ جیسے جیسے پارٹی آگے بڑھتی رہی کارکنان اور لیڈر شپ کا وژن زیادہ واضع ہوتاگیا۔اسی پُر وقار سیشن میں شھید ڈاکٹر منان کا قول ہے کہ ہمیں بلوچستان صرف اسکے وسائل اور اس کی جغرافیہ کی وجہ سے عزیز نہیں۔بلکہ بلوچستان ہمیں اس لئے عزیز ہے کہ ہمارا مادر وطں ہے ۔چایے اس میں وسائل ہوں یا نہ ہو ہمارے لئے اِس کی اہمیت میں ذرہ برابر کمی نہیں آئیگی اور کتابوں کی مطالعہ کرنےکی تائید کرکے کہا۔

کتابیں ہر ورکر کو با شعور انقلابی سوچ فراہم کرتی ہے یہی سوچ پارٹی کی منظیم اور مستحکم انقلابی پارٹی بنے کی موجب بنی جس پر پارٹی کے لیڈر شپ اور کارکنوں نے ریاستی جابرانہ تشدد اور کریک ڈوں کے باوجود 2022 کو پارٹی کی دسواں پروقار اور کامیاب سیشن منقد کرکے نئی قیادت کی پروریش کی بنیاد ڈالی۔اور پارٹی کو آپنے حدف پر جاری رکھکر تونائی بخشی ۔جو بلوچ تاریخ میں ایک مثال ہے BNM آپنے بانی قائ دیں شھید غلام مھمد شھید لالا منیر شھید ڈاکٹر منان اور انقلابی کارکنوں کی شھادت اور سینکڈوں انقلابی کارکن کی کئی سالوں سے ریاستی ٹارچر سیلوں میں ٹارچر اور تشدد سہنےکےباوجود جمود کا شکار نہ ہوا جو آج تک ُپروقار انقلابی سوچ اور نظریہ کے ساتھ انقلابی کارکنوں کی شپ و روز محنت اور قربانیوں کی فلسفے پر منزل کی جانب روان دوان ہے۔اور BNM آپنا انقلابی کردار قاہدیں کےنظریہ کے تحت اس جنگ آذادی کی تحریک میں آپنا انقلابی کردار و عمل قومی فرایضہ سمجھ کر نبھاتے رہینگے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here