بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے بولان میں گزشتہ پانچ دنوں سے آپریشن کے نام سے جاری پاکستانی فوج کی جارحیت میں کثیر تعداد میں خواتین و بچوں کو زیرحراست لینے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بولان کے مختلف علاقوں میں گزشتہ پانچ دنوں سے سیکورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے اور اس وقت تک مختلف علاقوں سے درجنوں خواتین اور بچوں کو سیکورٹی فورسز نے زیرحراست لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے جن کے حوالے سے مقامی لوگوں کو کوئی علم نہیں جبکہ دوسری جانب بولان کے مختلف علاقے گزشتہ پانچ دنوں سے مکمل محاصرے میں ہیں جس سے لوگوں کیلئے سانس لینا محال بن چکا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ اس وقت اب تک لاپتہ ہونے والے خواتین میں سے 11 کی شناخت ہوچکی ہے جن میں سمو سمالانی، زربخت سمالانی، بانی سمالانی، فریدہ سمالانی، ماہسو سمالانی، گل بی بی سمالانی، در خاتون مری، سمیدھا سمالانی، راجی سمالانی، زرگل مری اور حنیفہ مری شامل ہیں جبکہ آپریشن میں متعدد مرد و بچوں کو بھی اٹھایا گیا ہے جن کا شناخت ہونا اب تک باقی ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل چکا ہے اور مقامی آبادی کو بنیادی ضروریات اشیاء سے مکمل طور پر محروم رکھا گیا ہے جس سے ایک انسانی المیہ جنم لینے کا خطرہ پیدا ہوچکا ہے۔ آپریشن کے نام پر خواتین و بچوں کو زیر حراست میں لینا، علاقوں کو محاصرے میں رکھنا، عوام کو بنیادی ضروریات اشیاء سے محروم رکھنا جنگی جرائم ہیں۔ ہزاروں افراد کو اس طرح موت کے منہ میں چھوڑنا سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس کی ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو مذمت کرنی چاہیے۔ اس طرح کی غیر قانونی و ماورائے عدالت کاررائیوں سے بلوچ عوام کے اندر نفرت میں مزید اضافہ ہوگا۔
ترجمان نے بیان کے آخر میں زیرحراست خواتین و بچوں کی فوری طور پر بازیابی، علاقوں کے محاصرے کے خاتمے، عوام کے بنیادی حقوق کی تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ خواتین و بچوں کی غیر قانونی زیرحراست اور علاقوں کو محاصرے میں رکھ کر عوام کو ضروری اشیاء سے محروم رکھنا لاکھوں کی آبادی کو موت کی منہ میں ڈالنے کا مترادف ہے۔ سیکورٹی فورسز کو چاہیے کہ وہ بنیادی انسانی کی حقوق کا خیال رکھیں جبکہ حکومت اور عدلیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان سے جڑے حالات کو نظرانداز نہ کریں جبکہ سیکورٹی فورسز کو آپریشن بند کرنے کی فوری ہدایت دیں جس سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔