لفٹنینٹ سکندر بلوچ | شہسوار بلوچ

0
344

نوجوان اور وطن کے جنون و عشق میں گم کمسن سرمچار سکندر کے کردار کے سامنے میرا خیال میرے جذبات سب نے گھٹنے ٹیک دی ہیں۔ جس نے اپنی بندوق ہماری امید پر چھوڑ کر خود جام شہادت نوش کیا ہے۔ اُسے یہ امید تھی کہ یہ کاروان کبھی نہیں رکھے گا یہ نوجوانوں کے شکل میں ایک مضبوط ریاست کا پیش خیمہ ہوگا جس میں ہماری مائیں،بہنیں ایک پُر امن فضا میں زندگی گزارینگے جہاں امیر و غریب کا کوئی فرق نہیں ہوگا بس سب ایک جیسے خوشحال زندگی گزارینگے۔

دنیا میں یہی کہا جاتا ہے کہ جو غلام قوم کے نوجوان اپنے جنون و جذبے سے اپنے محکوم لوگوں کی خدمت اور اُن کی آزادی کے لیے لڑتے ہیں و اپنا سب کچھ داوے پر لگاتے ہیں تو اُس قوم کو کوئی بھی طاقت اپنے قبضے میں دیر تک نہیں رکھ سکتا۔

ان کرداروں میں سے ایک میرے بہادر دوست سکندر تھا جس نوجوان نے اپنے سینے میں کئی گولیوں کو با آسانی سے جگہ دے دی
کہ کل کوئی یہ نہ کہے کہ بلوچستان کی مٹی سے بہادر سپتوں نے جنم نہیں لیا ہے ۔

سکندر نے کئی محازوں پر جنگیں لڑی، سرد موسموں میں بغیر بستر کے پہاڑوں میں رہا لیکن ایک لمحے کے لیے اپنی مزاحمت کو کمزور ہونے نہیں دیا۔ گرم موسموں میں سفر کرتا رہا لیکن کبھی کسی سے یہ نہیں سنا کہ یہ نوجوان تک گیا ہے یا اس کو آرام چاہیے۔
کئی بار ناپاک فوج سے دو بہ دو لڑائی میں دُشمن کو پسپا کرنے پر مجبور کیا۔ 22 کی سال عمر میں بڑے سے بڑے کاموں کو سر انجام دے کر ہمیں اپنے کردار پر فخر و نازاں ہونے چھوڑا۔


ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہاں وہ ایک عظیم و اعلی فہم سرمچار تھا ۔ سکندر جان دو سال پہلے 18 ستمبر 2020 کو ایک فوجی آپریشن میں 4 ساتھیوں سمیت شہید ہوا۔ شہید ہونے والے دیگر دوستوں میں کمانڈر مسلم بلوچ، منصور بلوچ، سعاداللہ بلوچ شامل تھے۔ اس جنگ میں جہاں ہمارے یہ چار سرمچار شہید ہوگئے وہاں دشمن کے کئی اہلکار مارے بھی گئے۔

***

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here