کراچی میں سندھ پولیس کے ہاتھوں گرفتاربلوچ خواتین نے اپنی رہائی میں بی این پی مینگل کے کردار سے انکار کردیا ہے۔
گزشتہ روز سندھ اسمبلی کے سامنے لاپتہ افراد کی جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچ خواتین پر سندھ پولیس کا بہیمانہ تشدد اور بچوں پر لاٹھی چارج کرنے پر حکمران جماعت، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر حکومت سے اپنی راہیں جدا کرنے کا عندیہ دیاجسے بلوچ حلقوں نے ان کے موقف کو فریب اور جھوٹ قراردیا تھا۔
لاپتہ افراد کی بازیابی کی قیادت کرنے والی افراد نے سوشل میڈیا پربی این پی مینگل کے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ ان کی رہائی میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کا کوئی کردارتھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تھانے میں خود اپنی شوریٹی دی جس کی بنیاد پرانہیں چھوڑدیاگیاتھا۔
واضع رہے کہ اختر مینگل نے ٹویٹ کرتے ہوئے بلوچ خواتین پر سندھ پولیس کی گرفتاری اور تشدد کی مذمت کی اور کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے حکومت نے انہیں وقت دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ڈیلیور نہیں کرسکتے تو ہم اپنی راہیں جدا کرلیں گے۔
سینئر صحافی اور مصنف عزیز سنگھور نے ٹوئٹر پر اختر مینگل کے ٹوئٹ پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں (اختر مینگل) کو جواب دیا کہ 13 جون 2022 کو سندھ اسمبلی کے سامنے بلوچ خواتین پر تشدد کے ممکنہ پولیس ایکشن کے بارے میں 12 جون سے آگاہ کررہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان (اختر مینگل) کو ایک دن قبل کہا تھا کہ حالات کشیدہ ہوگئے ہیں۔ آپ کراچی سے بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے بات کرکے ان کی رہائی ممکن بنائیں۔ مگر آپ نے کچھ نہیں کیا اور یہ ایکشن ہوا۔
عزیز سنگھور نے مزید کہا کہ انہوں نے 24 مئی 2022 کو کراچی پریس کلب کے سامنے بلوچ خواتین پر تشدد اور ان کی رہائی کیلئے اختر مینگل کو واٹس کے ذریعے رابطہ کیا۔ تاہم اختر مینگل نے انہیں جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے جدوجہد کی قیادت کرنے والی رہنما آمنہ بلوچ نے اختر مینگل کو ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا:“اختر صاحب!! جب ہمارا دھرنا سندھ اسمبلی کے سامنے جاری تھا تو وہاں پر موجود سینئر صحافی اور مصنف عزیز سنگھور آپ کو واٹس اپ پر سندھ پولیس کے ممکنہ ایکشن کے بارے میں آگاہ کررہا تھا۔ اگر آپ بروقت بلاول بھٹو اور وزیراعلی سندھ سے بات کرتے تو یہ نوبت نہیں آتی۔ اب افسوس کرنا فضول ہے۔ سندھ پولیس نے ہم پر تشدد کیا۔ ہمارے بچوں کو مارا اور بچیوں کو راشی انسپکٹر سجاد نے گندی گالیاں دی۔ اب آپکا استعفیٰ بلوچ قوم کے لئے بے معنی ہے۔ جب تک ہماری سر کی چادریں پولیس والوں کے ہاتھوں میں نہیں آتی آپ لوگ خاموش ہوتے ہیں۔ تھانے میں ہم نے خود اپنی شوریٹی دی تو ہمیں چھوڑا گیا۔ ہماری رہائی میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کا کوئی کردار نہیں ہے۔”