بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل (اسلام آباد) کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ مذمتی بیان میں حالیہ دنوں میں بلوچ طالب عملوں کی جبری گمشدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئے روز بلوچ طالب علموں کو جبری طور پر گمشدہ کرکے ایک خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے جو بلوچ طالب علموں کیلئے تعلیم کے دروازوں کو بند کرنے کے مترادف ہے لیکن ریاستی تعلیم دشمن پالیسیاں بلوچ طلباء کو تعلیم حاصل کرنے سے قطعاً محروم نہیں رکھ سکتے۔ تعلیم جیسی آئینی حق کو چھیننے کی اوچھے ہتھکنڈے کی جنتی مذمت کی جائے کم ہے۔
اُنہوں نے کہا ہے کہ ریاستی خفیہ اِداروں نے حالیہ دنوں میں متواتر درجنوں بلوچ طالب علموں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنارہے ہیں جس سے بلوچ طلبا و طالبات میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ سہیل اور فصیح بلوچ کو یکم نومبر، 2021 کو بلوچستان یونیورسٹی کے احاطے میں جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا تھا جو تاحال بازیاب نہیں ہوئے۔ سعید عمر کو 28 اپریل، 2022 کو کراچی سے جبری طور پر اغواء کیا گیا، فیروز بلوچ 11 مئی، 2022 کو راولپنڈی سے، ابرار اِمام اور کریم جان کو 23 مئی، 2022 کو تربت سے جب اُن کے انٹرمیڈیٹ کے پیپرز چل رہے تھے۔
دودا اِلٰہی اور گمشاد غنی کو 7 جون، 2022 کو کراچی میں اُن کے کمرے سے خفیہ اِداروں نے جبری گمشدگی کا شکار بنایا اور شھداد بلوچ کو 2 جون، 2022 کو کراچی سے لاپتہ کر دیا گیا جن کا تاحال کوئی پرسال حال نہیں۔ یاد رہے یہ سارے طالب علم تھے اور مختلف کالجز اور یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ اِنہیں یوں کالی کھوٹریوں کی نظر کرنا ریاستی بغض و تعصبانہ رویہ کی عکاسی کرتی ہے۔
ترجمان نے مزید کہا ہے کہ پنجاب اور وفاق کے تعلیمی اِداروں میں بڑے شاطرانہ طریقے سے پہلے بلوچ طلباء کو ہراساں کیا جاتا ہے پھر اُن کی پروفائلنگ اور بعد ازاں خفیہ ادارے اُن کو جبراً لاپتہ کرتے ہیں بغیر کوئی ایف آئی آرز اور بنا گرفتاری وارنٹ کے۔ اِس طرح کے عمل کی نا صرف مذمت کرتے ہیں بلکے آئینی و پُرامن طریقے سے احتجاج کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں طلباء کی جبری گمشدگیاں، پنجاب و اسلام آباد کے کیمپسز کے اندر بڑھتی ہوئی ہراسمنٹ اور پروفائلنگ کے کیسز، اور ہاسٹلز کے اندر طلباء و طالبات کے کمروں میں چھاپے اِنتہائی شرمناک ہے۔ دوسری جانب فیروز بلوچ کیس کے متعلق 9 جون کو بلوچ طلباء لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں پیش ہوئے مگر تعجب ہے نئے منتخب شدہ با عزت جج نے وکیل اور بلوچ طالب علموں کو سُنے بغیر کیس برخاست کیا۔ اِن سارے مسائل کے حوالے سے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے تفصیل کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کیا جائے گا۔
بلوچ طالبعلموں کی جبری گمشدگیوں میں اضافہ انتہائی تشویشناک ہے، ریاست کو بلوچ اسٹوڈنٹس کے ساتھ اپنا تعصبانہ رویہ بدلنا ہوگا۔ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد
بیان کے آخر میں ترجمان نے پورے بلوچ قوم، خواتین و حضرات، طلباء تنظیمیں و سماجی کارکنان سے اپیل کی ہے کہ اِس اجتماعی اذیت کے خلاف اتحاد کا دامن تھام کر بھرپور انداز سے آواز اُٹھائیں تاکہ اِس ریاستی جبر و ستم کو جڑ سے اکھاڑ سکیں۔