یمن میں خانہ جنگی کے الزام میں دو سابق جرمن فوجیوں کیخلاف مقدمہ شروع

0
190

جرمن فوج کے ان دو سابق سپاہیوں کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی ہے، جو ایک ’دہشت گرد گروپ‘ بنا کر یمنی خانہ جنگی میں حصہ لینا چاہتے تھے۔ ملزمان کے لیے میڈیا میں ’کرائے کے صوفی قاتلوں‘ کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے۔

جنوبی جرمن شہر شٹٹ گارٹ سے جمعرات نو جون کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یہ دونوں ملزمان ایک ایسی شخصیت سے متاثر تھے، جس کو نفسیاتی مسائل کا سامنا تھا۔ ان دونوں ملزمان میں سے ایک آخِم الوائر کی عمر 52 برس اور دوسرے آرینڈ اڈولف گریس کی عمر 60 برس ہے۔

دونوں پر الزام ہے کہ وہ اپنی قیادت میں کرائے کے قاتلوں پر مشتمل ایک ایسا مبینہ دہشت گرد گروہ قائم کرنا چاہتے تھے، جس کے ارکان کو یمن جا کر وہاں کئی برسوں سے جاری خانہ جنگی میں شامل ہونا تھا۔ یہ ملزمان اس دہشت گرد گروہ کے قیام کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ یمن جانے سے پہلے ہی گرفتار کر لیے گئے تھے۔

استغاثہ کے مطابق ملزمان کو خود کو صوفی ظاہر کرنے والے اور مستقبل کا حال بتانے والے ایک ایسے مبینہ شخص سے احکامات ملتے تھے، جو دراصل ذہنی مریض تھا۔ اس شخص کا دعویٰ تھا کہ اسے مبینہ طور پر غیب سے جو احکامات ملتے تھے، وہ ایسے حکم ہوتے تھے جن پر عمل کرنا ان دونوں سابق جرمن فوجیوں کے لیے لازمی ہوتا تھا۔

اسی لیے ملزمان کے بیانات اور ان کے خلاف فرد جرم کی روشنی میں ان دونوں کے لیے جرمن میڈیا میں ‘کرائے کے صوفی قاتلوں‘ کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے۔ آخِم الوائر اور آرینڈ اڈولف گریس گزشتہ برس کے اوائل سے 100 سے لے کر 150 افراد تک کی نفری پر مشتمل اپنے ایک دہشت گرد گروہ کے قیام کے لیے ممکنہ جنگجوؤں کی بھرتی کے لیے کوشاں تھے۔ ان ملزموں کو اکتوبر 2021ء میں جرمن اسپیشل فورسز نے گرفتار کیا تھا اور تب سے اب تک وہ حراست میں ہیں۔

استغاثہ کے مطابق ملزمان نے دوران تفتیش یہ دعویٰ کیا کہ وہ عرب دنیا کے غریب ترین ملک یمن کی خانہ جنگی میں اپنے گروہ کے ساتھ شامل ہو کر وہاں امن قائم کرنا چاہتے تھے۔ قانونی طور پر جو بات ان کے موقف کے خلاف جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ دونوں کو ہی علم تھا کہ وہ کرائے کا قاتلوں کا جو مسلح گروہ بنانا چاہتے تھے، وہ غیر قانونی تھا اور ان کی مستقبل کے لیے منصوبہ کردہ حکمت عملی کے نتیجے میں لازمی طور پر بہت سے عام یمنی شہری بھی مارے جاتے۔

ملزمان نے دوران تفتیش یہ بھی بتایا تھا کہ انہیں توقع تھی کہ وہ اپنے اس منصوبے کے لیے سعودی عرب سے مالی مدد حاصل کر سکتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ جن جنگجوؤں کو بھرتی کرتے، انہیں وہ سعودی عرب سے ملنے والی ممکنہ رقوم میں سے ماہانہ 40 ہزار یورو (46 ہزار امریکی ڈالر) تک ادا کر سکتے تھے۔

وفاقی جرمن فوج کے ان دونوں سابقہ فوجیوں نے اپنے ارادوں کو عملی شکل دینے کے لیے سعودی عرب کی حکومت کے نمائندوں سے رابطوں کی کوشش بھی کی تھی تاہم انہیں ریاض حکومت کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا تھا۔

سعودی عرب یمن کی برسوں سے جاری خانہ جنگی میں ایران نواز حوثی باغیوں کا مخالف اور یمن کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کا حامی ہے۔ اسی لیے سعودی عرب نے اپنی قیادت میں یمنی باغیوں کے خلاف ایک بین الاقوامی عسکری اتحاد بھی قائم کر رکھا ہے، جو یمنی باغیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے بھی کرتا رہا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here