پاکستان میں انسانی حقوق کے سابق وزیر شیریں مزاری کی صاحبزادی اور معروف وکیل و انسانی حقوق کارکن ایمان مزاری نے دعویٰ کیا ہے کہ گرفتاری سے قبل ان کی والدہ کا آرمی چیف کے ساتھ شدید بحث و مباحثہ ہو اتھا۔
انہوں نے کہا کہ والدہ نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اب ان کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ سکتا ہے۔
ایمان مزاری نے فوج کی جانب سے اپنے خلاف درج کرائے گئے مقدمے میں تین صفحات پر مشتمل تحریری جواب اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرایا ہے۔
جمع کروائے گئے بیان میں ایمان مزاری نے خود پر عائد الزامات سے انکار کیا اور کہا کہ ایف آئی آر میں درج الزامات بدنیتی پر مبنی ہیں اور میرے خلاف درج مقدمہ بے بنیاد اور قانونی کارروائی کا غلط استعمال ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ میری والدہ نے گرفتاری سے قبل بتایا تھا کہ ان کا آرمی چیف کے ساتھ شدید بحث مباحثہ ہوا تھا۔
ایمان مزاری کے بقول والدہ نے بتایا تھا کہ آرمی چیف کے ساتھ تلخ جملوں کے بعد کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ والدہ کی غیر قانونی گرفتاری کے روز میں نے جس شک کا اظہار کیا اسے کسی جرم میں معاونت کی کوشش نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستان آرمی کے جوانوں کو سینئر لیڈر شپ کیخلاف بغاوت پر اکسایا نہ کوئی معاونت کی۔
اس سلسلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایمان زینب مزاری حاضر کی پاکستانی فوج کی سینئر قیادت کے خلاف ہرزہ سرائی اور دھمکیوں کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر پولیس اور مدعی مقدمہ کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایمان مزاری کی درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار ایمان زینب مزاری حاضر اپنی وکیل زینب جنجوعہ کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ درخواست میں آپ نے لکھا ہے کہ جس بیان کی بنیاد پر مقدمہ ہوا وہ غیر ارادی طور پر تھا۔
عدالت نے ایمان زینب مزاری کی وکیل زینب جنجوعہ سے استفسار کیا کہ آپ نے تو واضح لکھا ہے کہ وہ (ایمان مزاری) ذہنی دباؤ میں تھیں اور انہوں نے ایک خدشے کا اظہار کیا تھا۔
عدالت نے سوال کیا کہ آپ نے شامل تفتیش ہو کر پولیس کو یہ باتیں بتائی ہیں؟
اس پر وکیل زینب جنجوعہ نے جواب دیا کہ شامل تفتیش ہو کر پولیس کے سوالات کے جواب دیے ہیں، درخواست گزار کی ماں کو اٹھا لیا گیا تھا، وہ دباؤ میں تھیں۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے پاکستان آرمی کے بارے میں کوئی بات ہی نہیں کی تو انتشار پھیلانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس بیان کے بعد تو ادارے کو اپنی شکایت بھی واپس لے لینی چاہیے تھی، ہم درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کر لیتے ہیں۔
انہوں نے پولیس اور مدعی مقدمہ کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کر لیا اور کیس کی مزید سماعت 9 جون تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ 26 مئی کو ایمان مزاری کے خلاف دارالحکومت کے تھانہ رمنا میں سید ہمایوں افتخار، لیفٹننٹ کرنل فار جج ایڈووکیٹ جنرل، جنرل ہیڈکوارٹرز راولپنڈی کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 505 (لوگوں کو مسلح افواج کے خلاف اکسانا) اور 138 (جوان کو خلاف ورزی کی ترغیب دینا) شامل کی گئی تھیں۔
بعد ازاں 27 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے وکیل ایمان زینب مزاری حاضر کی 9 جون تک ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی تھی۔
ایمان زینب مزاری نے عبوری ضمانت کی درخواست ایڈووکیٹ زینب جنجوعہ کے توسط سے دائر کی تھی، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی تھی۔