پاکستان کے معروف وکیل اور انسانی حقوق کارکن ایمان مزاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ میری والد ہ شیریں مزاری کو ’غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے اغوا‘ کیا گیاہے۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ اپنی والدہ کی حراست کے لیے گرفتاری کا لفظ استعمال نہیں کریں گی کیونکہ گرفتاری کی صورت میں گھر والوں کو بتایا جاتا ہے کہ اس شخص کا کیا جرم ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ابھی تک اُنھیں نہیں پتا کہ اُن کی والدہ کہاں ہیں۔
ایمان مزاری نے کہا کہ اس حکومت کی جانب سے اُنھیں جبراً لاپتہ کیا گیا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کو اسلام آباد سے ‘گرفتار’ کرلیا گیاہے۔
اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے تصدیق کی تھی کہ شیریں مزاری کو حراست میں لیا گیا ہے۔
اسلام آباد پولیس نے ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ ‘ڈاکٹر شیریں مزاری کو قانون کے مطابق اسلام آباد کی خواتین پولیس اہلکاروں نے گرفتار کیا، کسی قسم کی مس ہینڈلنگ کی خبریں بے بنیاد ہیں ‘۔
پولیس نے بتایا کہ ‘خواتین پولیس افسران نے محکمہ اینٹی کرپشن کی درخواست پر گرفتار کیا’۔
شیریں مزاری کی گرفتاری کی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خواتین پولیس اہلکار انہیں کار سے باہر نکال رہی ہیں جبکہ انہیں احتجاج اور یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ‘‘مجھے مت چھوئیں‘۔
فوٹیج میں نامعلوم آواز بھی سنی جاسکتی ہے، جس میں کہا جا رہا ہے کہ‘کوئی مسئلہ نہیں ہے’اور معاملے پر پرامن طریقے سے بات ہوسکتی ہے جبکہ شیریں مزاری کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ‘آپ وائیلنس کر رہے ہیں، آپ میرا فون نہیں لے سکتے ہیں ’۔