پوٹن کو ادراک ہونے لگا کہ وہ یوکرین جنگ ہاررہا ہے،سابق روسی وزیراعظم

0
176

سابق روسی وزیر اعظم میخائل کاسیانوف نے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدر ولادیمیر پوٹن کو یہ ’ادراک ہونے لگا ہے کہ وہ یوکرین میں جنگ ہار‘ رہے ہیں۔

میخائل کاسیانوف سن دو ہزار کی دہائی کے اوائل میں ولادیمیر پوٹن کے ساتھ بطور وزیر اعظم فرائض انجام دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یوکرین کی جنگ سے ولادیمیر پوٹن کا اعتماد متزلزل ہو گیا ہے۔ یورپ کے ایک نامعلوم مقام سے ڈی ڈبلیو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ روسی صدر کو ان کے جرنیلوں نے حالتِ جنگ کے بارے میں گمراہ کیا ہو اور انہیں اصل حقائق سے آگاہ نہ کیا گیا ہو۔

کاسیانوف نے برطرفی سے قبل 2000ء سے 2004ء تک پوٹن کے پہلے وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے ایک اپوزیشن جماعت بنائی اور 2008ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔ وہ صدر پوٹن کے ناقد ہیں اور اس وقت جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پوٹن نے نو مئی کو ‘یوم فتح‘ پر، جو تقریر کی تھی، اس میں وہ ‘طاقت کی بات‘ نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ ‘تھوڑے گھبرائے ہوئے‘ دکھائی دے رہے تھے۔

اس تقریر میں صدر پوٹن نے کہا تھا کہ مغرب روس پر حملے کا منصوبہ رکھتا تھا اور یوکرین میں فوجی مداخلت کرنا ان کے پاس واحد حل بچا تھا۔

کاسیانوف کا کہنا تھا، ”مسٹر پوٹن کا ردعمل اور ان کی تقریر بالکل کمزور تھی۔ پوٹن کو یہ احساس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ وہ یہ جنگ ہار رہے ہیں۔“

کاسیانوف نے اس نظریے کی حمایت کی، جس کے بارے میں بہت سے تجزیہ کار یہ بتا چکے ہیں کہ کس طرح پوٹن کے اندرونی حلقے نے معلومات کو اپنے تک روک کر رکھا یا انہیں بری خبروں کی فراہمی کے خوف سے جنگ کی مکمل تصویر فراہم نہیں کی۔ کاسیانوف کا کہنا تھا، ”مجھے یقین ہے کہ انہیں گمراہ کن معلومات فراہم کی گئیں۔ پوٹن کو یقین تھا کہ ملکی آرمی بہت اچھی حالت میں ہے اور وہ بہت جلد یوکرین جنگ جیت جائیں گے۔“

یہ سب اس کے چند ہفتے بعد ہوا، جب روس نے کییف سے پسپائی اختیار کی اور ملک کے مشرقی حصے میں اپنی توانائی کو دوبارہ مرکوز کیا۔

کاسیانوف کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میدان جنگ میں روس کو کئی شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اب صدر پوٹن تنازع کو ایک نئے مرحلے میں دھکیل سکتے ہیں، ”اب ہم ایک اور مرحلے کی طرف آرہے ہیں۔ یہ دشمنی کا، اقتصادی صلاحیتوں کا اور فوجی صلاحیتوں کا مقابلہ ہو گا۔“

ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک کی طرف سے یوکرین کو بھاری ہتھیار فراہم کرنے کے فیصلے سے ‘یوکرین کو فیصلہ کن‘ برتری حاصل ہو سکتی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here