عید کے روز کوئٹہ اور کراچی میں لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاجی مظاہرہ

0
229

عیدالفطر کے پہلے روز بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بلوچ اور سندھی لاپتہ افراد کے لواحقین نے پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کیا۔

احتجاج میں خواتین و بچوں نے حصہ لیکر عید کا پہلا دن پریس کلبوں کے سامنے گزارا جبکہ اس موقع پر لاپتہ افراد کے لواحقین آبدیدہ ہوگئے۔

بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں عیدالفطر کے پہلے دن کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

احتجاجی مظاہرے کی اپیل بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے دی تھی۔

احتجاج میں لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت طلباء تنظیموں کے رہنماوں اور کارکنان، ایکٹوسٹس، سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد اور سیاسی جماعتوں کے رہنماوں نے شرکت کی۔

ہاتھوں میں بینرز، پلے کارڈز اور پیاروں کی تصویریں اٹھائے لواحقین نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے نعرہ بازی کرتے ہوئے ریاست سے اپنے پیاروں کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کیا۔

احتجاجی مظاہرے میں 13 سال قبل لاپتہ ہونے والے طالب علم رہنماء زاکر مجید کی والدہ شریک تھی۔

اس موقع پر انہوں نے کہا کہ میں گذشتہ 13 سالوں سے اپنے لخت جگر کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہوں اور حکمرانوں کے دروازوں پر دستک دے رہی ہوں لیکن انہیں بلوچستان کے ماؤں پر کوئی رحم نہیں آتی ہے۔

احتجاجی مظاہرے میں لاپتہ جہانزیب، لاپتہ محمد سعید، لاپتہ غیاث الدین، لاپتہ آصف و رشید، فیاض، راشد، ارشاد سرپرہ سمیت دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے شرکت کرتے ہوئے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ہمیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سالوں سے سراپا احتجاج ہیں، ریاست کو اپنے عدالتوں پر بھروسہ نہیں تو اسکا سزا ہمیں نہیں دیا جائے۔

کوئٹہ مظاہرین میں بلوچستان کے سیاسی و سماجی تنظیموں کے کارکنان بھی بڑی تعداد میں شریک ہوئے جنہوں نے حکومت و سرکاری اداروں سے لاپتہ افراد کی بازیابی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اسی طرح سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بھی لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کیجانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاج میں سندھی کارکنان، بلوچ یکجہتی کمیٹی، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) اور دیگر تنظیموں کے کارکنوں، لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت بڑی تعداد میں خواتین، مردوں اور بچوں نے شرکت کی۔

متحدہ عرب امارات سے جبری گمشدگی کے شکار بلوچ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین کی والدہ، بی این ایم کے لاپتہ رہنماء ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی بلوچ، لاپتہ شبیر بلوچ کی ہمشیرہ، و دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین شریک ہوئے لواحقین کا مطالبہ تھا کہ ہمیں ہمارے پیارے لوٹا دیں اگر ان پر کوئی الزام ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے لیکن اس طرح سالوں سے انہیں غائب کرنا بدترین ظلم ہے۔

کراچی پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کے احتجاجی کیمپ میں خواتین، بچوں سمیت سیاسی سماجی کارکناں کی بڑی تعداد نے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بلوچستان اور سندھ میں لاپتہ افراد بڑھتے ہوئے تعداد پر حکومت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے سے مظلوم قوموں کو خاموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here