کشمیر میں بھارتی فوج نے اپنے کنٹرول والے اسکولوں میں ٹیچرز کو نقاب نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
کشمیر کے سیاسی رہنماؤں نے فوج کے اس حکم کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا ہے جہاں تک لباس کا تعلق ہے تو کشمیری لڑکیوں کو اس کی مکمل آزادی ہے کہ وہ کیا اختیار کریں اور انہیں کوئی روک نہیں سکتا۔
شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ میں بھارتی فوج کے زیر انتظام چلنے والے معذور بچوں کے ایک اسکول کی جانب سے ایک حالیہ سرکلر میں حکم دیا گیا ہے کہ ٹیچرز کو ”اسکول کے اوقات میں حجاب سے گریز کرنا چاہیے۔”
اسکول کے پرنسپل کے سرکلر میں کہا گیا ہے کہ پریوار اسکول ”جذباتی لگاؤ اور اخلاقی طور پر سیکھنے اور بڑھنے کی جگہ ہے۔ اسکول کے عملے کا بنیادی مقصد ہر سیکھنے والے کو ممکنہ حد تک ترقی فراہم کرنا ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے طلبہ کے ساتھ نہ صرف اعتماد قائم کرنا ضروری ہے بلکہ انہیں خوش آئند، محفوظ اور خوشی کا احساس دلانا بھی ضروری ہے۔”
اس نوٹس میں مزید کہا گیا، ”اسی لیے اسکول کے عملے کو یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اسکول کے اوقات میں حجاب سے گریز کیا کریں تاکہ طلبہ اطمینان محسوس کر سکیں اور اساتذہ اور عملے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے خوشی سے آگے آئیں۔”
بھارتی فوج کے اس سرکلر پر کشمیری رہنماؤں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا، تو فوج نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سرکلر میں غلطی سے نقاب کے بجائے حجاب کا لفظ استعمال کیا گیا جبکہ اس سے مراد حجاب (سرڈھکنے کا عمل) نہیں بلکہ نقاب ہے۔
دفاعی ترجمان عمران موسوی نے بھارتی میڈیا سے بات چیت کہا، ”مجھے یہ واضح کرنے دیں کہ یہ حجاب نہیں بلکہ نقاب ہے۔“ ان کا کہنا تھا کہ یہ اسکول خصوصی طور پر معذور بچوں کے لیے ہیں، جو قوت سماعت بھی محروم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے بچوں کو، ”چہرے کے تاثرات و اشاروں کا استعمال کرتے ہوئے صوتیات سکھانی پڑتی ہیں۔ اگر کوئی ٹیچر نقاب پہنتی ہے تو وہ کیسے پڑھائے گی، بچے کیا دیکھ پائیں گے؟ اس لیے یہ حکم صادر کیا گیا ہے۔ سرکلر صرف اساتذہ کے لیے ہے۔”