فوجی جنتا کی حکمرانی والے میانمار میں ایک عدالت نے جمہوریت نواز اور اقتدار سے برطرف رہنما آنگ سان سوچی کو بدعنوانی کے الزامات میں بدھ کے روز قصور وار قرار دیا اور انہیں پانچ برس قید کی سزا سنائی۔
ایک حکومتی قانونی اہلکار نے متعدد خبر رساں ایجنسیوں سے بات کرتے ہوئے اس سزا کی تصدیق کی تاہم اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی گزارش کی کیونکہ مقدمات بند کمرے میں چلائے جارہے ہیں۔
سوچی پر یانگون شہر کے سابق وزیر اعلیٰ فایو من تھیئن سے چھ لاکھ روپے نقد اور گیارہ کلوگرام سونا بطور رشوت لینے کے الزامات ہیں۔ فایو من ایک وقت سوچی کے انتہائی بااعتماد اور قریبی ساتھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اکتوبر 2021میں سوچی کو مذکورہ رقم اور سونا دینے کی بات قبول کی تھی۔
گزشتہ برس ایک فوجی بغاوت میں اقتدار سے معذول کردی جانے والی سوچی ان الزامات کی تردید کرتی ہیں۔ بدھ کے روز جو سزا سنائی گئی اسے دیگر عدالتوں کی جانب سے اب تک سنائی گئی سزاوں کے ساتھ ملا کر سوچی کی قید کی سزائیں گیارہ بر س ہوگئی ہے۔
میانمار کے فوجی رہنماوں نے سوچی پرقانون کی خلاف ورزی کے متعدد الزامات عائد کیے۔ ان میں سرکاری رازوں اور انتخابی قوانین کی خلاف ورزی سے لے کر بدعنوانی تک کے الزامات شامل ہیں۔
ان پر جتنے الزامات لگائے گئے ہیں ان کے تحت مجموعی طورپر 150بر س سے زیادہ کی قید میں گزارنے پڑسکتے ہیں۔ بدھ کے روز سوچی کے خلاف سنائی گئی سزا سے پہلے انہیں ملک میں کورونا وائرس وبا کے ضابطوں کی خلاف ورزی اور غیرقانونی طورپر واکی ٹاکی درآمد کرنے کا قصور وار پایا گیا تھا اور چھ برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
سوچی کے خلاف الزامات کی سماعت گزشتہ برس شروع ہوئی۔ قانونی کارروائیاں بند کمرے میں ہورہی ہیں اور بین الاقوامی برادری نے ان کی نکتہ چینی کی ہے۔
سوکی کی قانونی ٹیم پر بھی کئی طرح کی پابندیاں عائد ہیں اور انہیں پریس کے ساتھ بات چیت کرنے کی آزادی نہیں ہے۔
گزشتہ برس فروری میں ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے ہی میانمار میں افراتفری کا ماحول ہے۔ فوجی بغاوت کے نتیجے میں سوچی کو ان کے اقتدار سے ہٹادیا گیا تھا اور ان کی حکومت کو برطرف کردیا گیا تھا۔
سوچی کو اس کے بعد ان کے گھر میں نظر بند کردیا گیا لیکن قصور وار قرار دیے جانے کے بعد انہیں کسی نامعلوم مقام پر قید میں رکھا گیا ہے۔
مظاہرین فوجی حکومت اور فوجی کارروائیوں کی مخالفت کررہے ہیں۔ ان مظاہروں میں اب تک 1700سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔