شمالی افغانستان میں چار دھماکوں کے نتیجے میں متعدد افراد کے ہلاک اور زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ ایک دھماکہ جمعرات کو مزارِ شریف میں ایک شیعہ مسجد کے اندر ہوا جس میں کم از کم 31 افراد ہلاک اور 87 سے زیادہ زخمی ہو گئے ہیں۔
دولتِ اسلامیہ (داعش) نے حملے کی ذمہ داری لی ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ انھوں نے داعش کو شکست دے دی ہے لیکن پھر بھی یہ گروپ افغانستان کے نئے حکمرانوں کے لیے ایک سنگین سیکیورٹی چیلنج بنا ہوا ہے۔
دولتِ اسلامیہ کے جہادیوں نے کہا کہ مزار شریف کی مسجد پر حملہ ریموٹ سے نصب بوبی ٹریپ بیگ کا استعمال کرتے ہوئے اس وقت کیا گیا جب عمارت نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔
گروپ نے اس حملے کو اپنے سابق رہنما اور ترجمان کی موت کا ’بدلہ‘ لینے کے لیے جاری عالمی مہم کا حصہ قرار دیا ہے۔
صوبائی محکمہ صحت عامہ کے ترجمان احمد ضیا زندہانی نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہر طرف خون اور خوف ہے‘ اور یہ کہ ’لوگ چیخ رہے تھے‘ اور مقامی ہسپتال میں اپنے رشتہ داروں کو ڈھونڈ رہے تھے۔
دوسرا دھماکہ قندوز میں ایک پولیس سٹیشن کے پاس ایک گاڑی میں ہوا جس میں چار افراد ہلاک اور 18 زخمی ہوئے۔
قندوز کے محکمہ صحت کے عہدیدار نجیب اللہ ساحل نے کہا کہ زخمی افراد کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
طلوع نیوز کے مطابق مزارِ شریف میں ہونے والا دھماکہ شیعہ مسلک کی سب سے بڑی مقامی مساجد میں سے ایک مسجدِ سہ دکان میں ہوا۔ اس وقت عبادت گزار نماز کی ادائیگی کی تیاری کر رہے تھے۔
مزارِ شریف کی ایک مقامی خاتون نے نام ظاہر نے کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ وہ ایک قریبی دکان میں خریداری کر رہی تھیں جب دھماکہ ہوا۔
’دکانوں کے شیشے ٹوٹ گئے، بہت ہجوم تھا اور ہر کوئی بھاگ رہا تھا۔‘
بی بی سی کو یہ بھی رپورٹ ملی ہے کہ مشرقی صوبے ننگر ہار میں طالبان کی ایک گاڑی سڑک کے کنارے لگی ہوئی بارودی سرنگ کے پھٹنے سے تباہ ہو گئی جس میں چار افراد ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا ہے۔
چوتھا دھماکہ افغانستان کے دارالحکومت کابل کے نیاز بیگ علاقے میں ہوا جہاں ایک بارودی سرنگ پھٹنے سے دو بچے زخمی ہو گئے۔
واضح رہے کہ اتوار کو کابل میں لڑکوں کے ایک سکول کے باہر دو بم دھماکوں میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور 11 زخمی ہو گئے تھے۔
دھماکے دشت برچی کے علاقے میں عبد الرحیم شاہد ہائی سکول کے باہر ہوئے۔
سکول کے قریب ایک ٹیوشن سنٹر پر بھی گرینیڈ سے حملہ کیا گیا ہے۔
کابل کے مغربی حصے میں واقع دشتِ برچی میں پہلے بھی کئی دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں جن کی ذمہ داری دولت اسلامیہ قبول کرتی رہی ہے۔ اس علاقے میں بڑی تعداد میں ہزارہ افراد مقیم ہیں۔ ہزارہ آبادی کی اکثریت شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے اور وہ افغانستان میں ایک اقلیت ہیں جنھیں ماضی میں بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
گذشتہ برس مئی میں دشت برچی کے علاقے میں لڑکیوں کے سکول پر حملے میں 90 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں طالبعلم اور سکول کے عملے کے افراد شامل تھے۔
ایک عینی شاہد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ دھماکے اس وقت ہوئے جب طالبعلم صبح کی کلاسوں کے بعد سکول سے جا رہے تھے۔
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد دولت اسلامیہ کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا لیکن کچھ عرصے بعد ان حملوں میں واضح کمی دیکھی گئی تھی۔
تاہم اب دوبارہ ہونے والے واقعات نے خوف کی ایک نئی لہر کو جنم دیا ہے۔