بلوچستان و فاٹا میں فوجی جارحیت کیخلاف قومی اسمبلی میں احتجاج وبائیکاٹ

0
226

مقبوضہ بلوچستان اور پاکستان کے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی نے گزشتہ روزاسمبلی اجلاس میں اپنے اپنے علاقوں میں جاری فوجی جارحیت پر آواز اٹھائی ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) کی پروفیسر ڈاکٹر شہناز بلوچ نے ایوان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ان کی پارٹی کے ایوان میں صرف 4 اراکین ہیں لیکن یہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی نمائندگی کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بی این پی کے سربراہ اختر مینگل اپنی پہلی تقریر میں پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر معاملات حل نہیں ہوتے تو انہوں نے حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کیوں کیا؟

بی این پی-ایم کی رکن اسمبلی نے کہا کہ پچھلے 2، 3 روز میں بلوچ لوگوں کو مارا گیا اور ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی انہوں نے پارلیمنٹ کے ذریعے کوئی سرگرمی کی تو بلوچستان میں کوئی حادثہ پیش آیا اور لوگ مارے گئے۔

انہوں نے چاغی میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر فائرنگ کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پیر کی صبح ایک بار پھر بہت سے لوگ مارے گئے جس کی وجہ سے ہم نے واک آؤٹ کیا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے بتائیں ہم اور بی این پی مینگل کہاں جائیں؟ کم از کم ہمیں جینے کا حق تو دیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر تمام جماعتیں مل کر کام کریں جیسا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کو ہٹانے کی کوششیں کی تھیں تو وہ بلوچستان کے مسائل بھی حل کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے بہت سی ٹاسک فورسز بنائیں لیکن کسی کو بھی بلوچستان کی نمائندگی نہیں ملی۔

چاغی میں مظاہرین پر سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے معاملے پر بی این پی ایم کے ارکان نے پیر کو قومی اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا۔

یہ معاملہ بی این پی ایم کے آغا حسن بلوچ نے اٹھایا اورکہا کہ 16 اپریل کو چاغی میں سکیورٹی فورسز نے نہتے اور مظلوم بلوچوں پر فائرنگ کی جس میں 6 افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔

بعد ازاں آغا حسن بلوچ نے پارٹی ارکان کے واک آؤٹ کی قیادت کی اور پھر وہ باقی کارروائی میں شرکت کے لیے واپس ایوان میں نہیں آئے۔

اسی طرح جے یو آئی (ف) کے محمد جمال الدین نیکہا ہے کہ 3 روز قبل افغانستان کے سرحدی شہر خوست میں پاکستانی فضائیہ کی بمباری کے دوران وزیرستان کی خواتین اور بچے شہید ہوئے۔

انہوں نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا ہماری ایجنسیاں اتنی کمزور ہیں؟ وہ ہمارے علاقوں میں باقاعدگی سے آتے ہیں، وہ کلاشنکوفیں اٹھائے گھوڑوں پر ناچتے ہوئے 40 سے 50 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد یہاں آتے ہیں، کیا وہ (ایجنسیاں) انہیں نہیں دیکھتے؟

جے یو آئی (ف) کے رکن قومی اسمبلی نے حکومت سے کہا کہ وہ آئی ڈی پیز کے طور پر رہنے والی خواتین اور بچوں کو ان کے آبائی علاقوں میں واپس لانے کے لیے کچھ اقدامات کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر علاقے میں دہشت گرد یا طالبان موجود ہیں تو سیکیورٹی فورسز کو ان کے خلاف کارروائی ضرور کرنی چاہیے لیکن کم از کم معصوم لوگوں کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔

انہوں نے قبائلی عوام پر ایسے بمباری کو انسانی حقوق اور پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی قرار دیا۔

محمد جمال الدین نے کہا کہ انہیں جنوبی وزیرستان کے اپنے حلقے سے اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ رازن مندیش کے علاقے میں ایک اور آپریشن کی تیاریاں جاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب آئی ڈی پیز کو ان کے شناختی کارڈز کی جانچ پڑتال کے بعد واپس آنے کی اجازت دی گئی تو فوج نے انہیں بتایا کہ علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کر دیا گیا ہے اور امن بحال ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی فوج نے آپریشن کا اعلان کیا دہشت گرد علاقہ چھوڑ کر چلے گئے اور صرف مقامی لوگوں کو نقصان پہنچا۔

انہوں نے کہا کہ وہ مزید آپریشن کے متحمل نہیں ہو سکتے، اگر فوج دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنا چاہتی ہے تو وہ کر سکتی ہے لیکن عام لوگوں کو نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔

واضع رہے کہ یہ معاملہ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں آزاد ایم این اے محسن داوڑ اور پی ٹی ایم کے رہنما علی وزیر نے بھی اٹھایا تھااور شدید احتجاج کیا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here