جنوبی ایشیائی ممالک کا معاشی ترقی خطرے میں ہے،ورلڈ بینک

ایڈمن
ایڈمن
6 Min Read

عالمی بینک نے کہا ہے کہ یوکرین جنگ کے اثرات اور سست معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ مسلسل معاشی چیلنجوں کی وجہ سے جنوبی ایشیائی ممالک غیر مستحکم بیرونی ماحول سے زیادہ خطرے میں ہیں۔

اپنی ششماہی بنیاد پر جاری ہونے والی ایک علاقائی رپورٹ میں ورلڈ بینک نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں پہلے سے ہی غیر مستحکم اور نازک ترقی گزشتہ کی گئی پیش گوئی کے مقابلے میں مزید سست ہوگی۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ ممالک نے جی ڈی پی کی نمو میں اچھی بحالی حاصل کی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خطے میں افغانستان کو انسانی بحران، پاکستان کو سیاسی بحران اور سری لنکا کو ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا سامنا ہے۔

‘جنوبی ایشیا اکنامک فوکس ری شیپنگ نارمز، اے نیو وے فارورڈ’ تازہ ترین رپورٹ میں 2022 میں خطے کی شرح نمو 6.6 فیصد اور 2023 میں 6.3 فیصد تک رہنے کی توقع ظاہر کی ہے۔

رپورٹ میں 2022 کی پیشن گوئی میں جنوری میں کی گئی پیش گوئی کے مقابلے میں ایک فیصد پوائنٹ کم کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک پہلے ہی اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، سپلائی میں رکاوٹوں اور مالیاتی شعبوں میں کمزوریوں کے مسائل سے دوچار ہیں، یوکرین میں جنگ ان چیلنجوں کو مزید بڑھا دے گی، افراط زر اور مالیاتی خسارے میں اضافہ ہوگا جو کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو مزید بگاڑ دے گا۔

جنوبی ایشیا کے لیے ورلڈ بینک کے نائب صدر کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا کو گزشتہ دو سالوں میں متعدد جھٹکوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں وبائی مرض کووڈ 19 کے اثرات بھی شامل ہیں، یوکرین میں جنگ کی وجہ سے تیل اور خوراک کی بڑھتی قیمتیں لوگوں کی آمدنی پر سخت منفی اثر ڈالیں گی۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توانائی کی مد میں دی جانے والی سبسڈی جی ڈی پی کے تناسب کے لحاظ سے پاکستان میں سب سے زیادہ ہے اور خطے میں بھی سب سے زیادہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں اضافہ ممکنہ طور پر ایک مشکل مالیاتی چیلنج ہے۔

جنگ اور اس کے ایندھن کی قیمتوں پر اثرات خطے کو ایندھن کی درآمدات پر انحصار کو کم کرنے اور گرین، غیر لچکدار اور جامع ترقی کے راستے پر منتقلی کے لیے ضروری محرک فراہم کر سکتے ہیں۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ممالک ایندھن کی غیر موثر سبسڈی سے دور رہیں جو امیر گھرانوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور عوامی وسائل کو ختم کرتے ہیں۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کو بھی بتدریج ٹیکس لگا کر گرین اکانومی کی جانب بڑھنا چاہیے، اس پالیسی کے تحت ماحولیات کو نقصان پہنچانے والی مصنوعات پر زیادہ ٹیرف لگایا جاتا ہے۔

ورلڈ بینک کا اپنی رپورٹ میں مزید کہنا تھا کہ جنوبی ایشیائی معیشتیں کووِڈ 19 کے تباہ کن معاشی اثرات ابھر رہی ہیں جن پر بلند افراطِ زر، بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور بگڑتے ہوئے مالیاتی توازن کا بوجھ ہے جو یوکرین میں جنگ کے اثرات سے بڑھ گیا ہے۔

جنوبی ایشیا میں مالیاتی شعبے کووِڈ 19 سے پہلے ہی نسبتاً کمزور پوزیشن میں تھے، انہیں وبائی مرض کورونا کے دوران سپورٹ کیا گیا لیکن اب انھیں نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترقی یافتہ معیشتوں میں بڑھتی ہوئی شرح سود سرمائے کے اخراج کا باعث بن سکتی ہے، جس سے ان ممالک کی کرنسیوں پر دباؤ پڑ سکتا ہے جو زیادہ بیرونی قرضوں سے دوچار ہیں۔

رپورٹ کے مطابق یہ صورتحال ان ممالک میں خاص طور پر تشویش کا باعث ہے جن میں غیر ملکی کرنسی سے متعلق قرضوں کی اعلی سطح ہے، جیسے سری لنکا، پاکستان اور مالدیپ۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ادائیگی کرنے کی اہلیت کے اشارے جن میں برآمدات اور ترسیلات زر میں عوامی بیرونی قرضوں کی خدمت کا تناسب شامل ہے، وہ پاکستان اور سری لنکا میں سب سے زیادہ تھے۔

رپورٹ کے مطابق اس خطے کو درپیش ایک اور چیلنج خواتین پر وبائی مرض کوروناکا غیر متناسب معاشی اثر تھا۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ میں خطے میں صنفی تفریق کا گہرائی سے تجزیہ کیا گیا اور اس تفریق کا گہرے سماجی اصولوں کے ساتھ تعلق اور ان تجویز کردہ پالیسیوں کے ساتھ تعلق کا جائزہ لیا گیا جو خواتین کی معاشی مواقع تک رسائی، امتیازی اصولوں سے نمٹنے اور جامع ترقی کے لیے صنفی نتائج کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوں گی۔

Share This Article
Leave a Comment