بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں شہدائے مرگاپ شہید چیئرمین غلامحمد، لالامنیر اور شیر محمد بلوچ کو ان کی لازوال جدوجہد اور قربانی پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہداکے لہو نے بلوچ قومی تحریک کو جلا بخشتے ہوئے ہزاروں بلوچ نوجوانوں کو اسی فلسفہِ جدوجہد پر کاربند بنایاجو آج بھی آزادی کے مشعل کو جلائے ہوئے ہیں۔ شہدا کی جدوجہد کے بدولت بلوچ قومی تحریک آج تمام شعبوں میں فعال ہو کر ایک واضح سمت لیے آزادی کی جانب گامزن ہے۔
انھوں نے کہا شہید چیئرمین غلام محمد سیاسی بصیرت سے لیس بلوچ قومی رہنما تھے۔ طالبعلمی کے زمانے میں انھوں نے نوجوانوں میں قومی شعور اجاگر کرنے اور بلوچ نوجوانوں کو واضح سیاسی سمت دینے کیلیے بی ایساو کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کی اور طلبا سیاست میں نہایت ہی فعال کردار ادا کیا۔ شہید چیئرمین غلام محمد نیطلبا سیاست سے فارغ ہو کر بی ایس او کے دیگر رہنماؤں کے برعکس بلوچ قومی جدوجہد کیلیے مضبوط بنیادیں بنانے کی سعی کی جس کیلیے اُن کا نصب العین تنظیم اور پارٹیوں کا قیام تھا۔انھوں نے اپنی سیاسی بصیرت کیبدولت بلوچ نوجوانوں کو پارٹی اور تنظیموں کے بینر تلے یکجا کرنے اور بلوچ قومی جدوجہد کو منظم شکل دینیکی انتھک کوشش کی اور آج اسی جدجہد کا ثمر ہے کہ بلوچ قومی تحریک ایک واضح سمت لیے منظم اور سائنسیبنیادوں پر آئے روز ترقی کی جانب گامزن ہے۔
انھوں کہا کہ شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ قومی تحریک کے سرخیل رہنما تھے اور ان کا شمار موجودہ قومیتحریک میں آزادی کے اولین علمبرداروں میں کیا جاتا ہے۔انھوں نے ریاست کی جانب سے حائل تمام رکاوٹوں کو عبورکرتے ہوئے بلوچ عوام کی تربیت کیلیے جلسہ جلوس اور ریلیوں کا انعقاد کیا اور بلوچ عوام کو قومی تحریک کاحصہ بنانے کی انتھک کوشش کی۔انھوں نے اپنی سیاسی بصیرت کو استعمال کرتے ہوئے مختلف دھڑوں اورگروہوں میں بٹے جہدکاروں کو ایک لڑی میں پرونے کی جدوجہد کی۔ سامراجی اور قبضہ گیر ریاست کی جانب سیچیئرمین غلام محمد بلوچ کی سیاسی جدوجہد ایک آنکھ نہ بھا سکی۔ ریاست نے انھیں پابند و سلاسل کیا اورمختلف اذیتیں دی لیکن شہید اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹے۔ تمام تر حربے آزمانے کے باوجود شہید نے اپنیسیاسی جدوجہد جاری رکھی۔بالآخر ریاست نے اپنا آخری وار استعمال کرتے ہوئے 3 اپریل 2009 کو شہید غلام محمدکو ان کے دو ساتھی لالا منیر،شیر محمد بلوچ کے ساتھ جبری طور پر لاپتہ کیا اور بعدازاں اُن کی مسخ شدہ لاشیں مرگاپ کیچ کے مقام پر پھینک دی۔
اپنے بیان کے آخر میں انھوں نے کہا کہ شہدا کا فلسفہِ قربانی ایک آزاد قوم اور خومختار وطن کا وارث ہونا ہے۔ہمشہدا کے عظیم قربانی پر انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور اس دن کی مناسبت سے اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہبلوچ وطن کی آزادی کیلیے جدوجہد جاری رکھی جائے گی اور اس عمل میں کسی بھی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا جائے گا۔