عوامی ورکرز پارٹی (اے ڈبلیو پی) سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا بھرپور خیرمقدم کرتی ہے جس میں عدالت نے 3 اپریل کے واقعات کو غیرآئینی قرار دیا اور قومی اسمبلی کے سپیکر کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ مکمل کرنے کا حکم دیا ہے۔
اے ڈبلیو پی کے صدر یوسف مستی خان، جنرل سیکرٹری بخشل تھلہو اور سینئر نائب صدر اختر حسین نے کہا ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا فیصلہ مستقبل میں صوابدیدی اور غیر آئینی اقدامات کی روک تھام کی واضح مثال ہے اور ساتھ ہی ساتھ اعلیٰ ترین جج صاحبان کی ساکھ کے لئے بھی بہتر ہے، جنہوں نے ماضی میں‘نظریہء ضرورت’کی آڑ میں اکثر آمروں اور غیر آئینی چالوں کو ہموار راستہ فراہم کیا ہے۔ تاہم اے ڈبلیو پی کی قیادت، پارٹی کے دیرینہ مؤقف پر دوبارہ زور دیتی ہے کہ پاکستانی ریاست اور معاشرے میں، بامعنی جمہوریت کو صرف قانونی اور آئینی طریقوں سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ اس حقیقت پر جشن منانے کا کوئی جواز نہیں کہ حکمران پی ٹی آئی اور مرکزی دھارے کی حزب اختلاف کی جماعتوں کے پاس ایسا کوئی سیاسی اور معاشی پروگرام نہیں موجود نہیں ہے کہ جس کی مدد سے پاکستان کو بیرونی قرضوں کے غبارے سے نکالا جا سکے، یا قومی سلامتی کے ایک بے لگام نظام کو قابو کیا جا سکے اور محنت کش عوام کی اکثریت کے روزگارِ زندگی، رہائش، صحت اور تعلیم کی ضروریات کو پورا کرنے والے ترقیاتی ایجنڈے پہ عمل پیرا ہوا جا سکے۔
اے ڈبلیو پی کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کس طرح، آئینی بحران کے سامنے، بائیس کروڑ پاکستانی عوام کی اکثریت، خاموش تماش بین بنی ہوئی ہے اور ملک کی مرکزی دھارے کی سیاست میں خود کو بامعنی کردار کے طور پر تصور کرنے سے قاصر ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت اور اس کے عوام دشمن ایجنڈے کی مخالفت کرنے میں، ترقی پسند طلبہ تنظیمیں، خواتین مارچ کی شرکاء، گوادر کے ماہی گیر باشندے، کچی آبادی کے مکین، کسان اور مزدور طبقہ شامل ہیں، لیکن صرف ایک ایسا متحد ترقی پسند سیاسی متبادل ہی پاکستان کو سامراجی قوتوں، ملٹری اداروں اور منافع خور افرادا کے چنگل سے آزاد کروا سکتا ہے، جو دور دراز علاقوں کی نسلی اقلیتوں سے لے کر پاکستان کے بڑے شہروں میں مقیم محنت کش عوام کو اکٹھا کرتا ہے۔
اے ڈبلیو پی کا ماننا ہے کہ اعلیٰ عدالتیں یہ تاریخ ساز فیصلہ کرنے پہ بھی قادر ہیں کہ 3 اپریل کے اقدامات کو واپس لینے کے ساتھ ساتھ اداروں کو مجبور کریں کہ وہ تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کریں، یہ وہ معاملہ ہے جو عرصہ دراز سے پاکستان کے اجتماعی شعور پر ایک دھبہ کی مانند ہے اور قانون کی حکمرانی کا مذاق اڑانے کا باعث ہے۔ مزید برآں، پارٹی، سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتی ہے کہ اے ڈبلیو پی کے بانی صدر عابد حسن منٹو کی طرف سے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ قبل دائر کی گئی آئینی درخواست پر فل بنچ سماعت کرے جس میں قومی اسمبلی کی جانب سے 1977ء میں زمینی اصلاحات کے منظور کردہ قانون کو بحال کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ اس طرح کے معاملات پر فیصلہ سازی کرنے سے، عدالتیں حقیقی معنوں میں آئین کی پاسداری کر سکیں گی۔ پارٹی قیادت نے کہا کہ حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ طلبہ کی ہراسگی،ان کے خلاف نسل پرستی اور جبری گمشدگیوں پہ فیصلہ سنانے کے ساتھ ساتھ پی ای سی اے آرڈیننس کو ختم کر کے بہت اہم مثالیں پیش کی ہیں، جن کی اب سپریم کورٹ پہ پیروی کرنی لازمی ہو گئی ہے۔