بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے طلبانے پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم بلوچ طلبہ ایک دفعہ پھر حفیظ بلوچ کی رہائی، وفاق اور پنجاب میں بلوچ طلباء کی ہراسمں نٹ اور وفاقی حکومت کی بے حسی کے معاملے کو لیکر آپ کے سامنے حاضر ہیں۔ آپ حضرات اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ حفیظ بلوچ کو 8 تاریخ کو خضدار کے ایک نجی تعلیمی ادارے سے اُن کے درجنوں طلباء کے سامنے اُٹھا کر جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ حفیظ بلوچ کی جبری گمشدگی کے بعد اسلام آباد میں زیر تعلیم بلوچ طلباء نے اس عمل کے خلاف ایک منظم پرامن احتجاجی تحریک چلائی جس میں پیس واک، پریس کانفرنس، احتجاجی مظاہرے اور بھوک ہڑتالی کیمپ بھی شامل تھے۔ جبکہ حفیظ بلوچ کی جبری گمشدگی کے فوراً بعد اس کے اہل خانہ نے خضدار کے متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر درج کرنے کے لیے درخواست جمع کرائی لیکن خضدار کے متعلقہ تھانے نے ٹال مٹول سے کام لیکر ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کردیا بالآخر جبری گمشدگی کمیشن کے درخواست کے ایما پر خضدار تھانے نے حفیظ بلوچ کے جبری گمشدگی کی ایف آئی آر درج کی تھی جس کی کاپی آج بھی خاندان کے پاس موجود ہے۔ لیکن ہمارے لیے صورتحال حیران کن اور افسوسناک اس وقت ہوئی جب تین مہینے سے جبری طور پر لاپتہ حفیظ بلوچ کو جعفر آباد تھانے میں منظر عام پر لاکر کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی جانب سے دہشتگردی جیسے سنگین قسم کے بے بنیاد مقدمات درج کیے گئے۔
حفیظ بلوچ کو 8 فروری بلوچستان کے ضلع خضدار سے ایک نجی اکیڈمی میں سینکڑوں طلباء اور لوگوں کے سامنے جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا. جنہیں بعد ازاں 15 مارچ کو منظر عام پر لانے کے بعد اُن پر کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی جانب سے دہشتگردی جیسے سنگین قسم کے بے بنیاد جھوٹے مقدمات درج کئے گئے. بدنامِ زمانہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) بلوچستان جو ماضی میں مختلف لوگوں کو جبراً لاپتہ کرنے اور انہی جبری طور پر گمشدہ افراد کی فیک انکاؤنٹر سے نمایاں طور پر جانا جاتا ہے. سی ٹی ڈی کی فعل ماضی اور حفظ بلوچ پر داغے گئے بے بنیاد الزامات کے پیشِ نظر بلوچ طلباء کے خدشات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے. ہم عدالتِ عالیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں انکوائری کرکے حفیظ بلوچ کو بحفاظت رہا کرکے بلوچ طلباء کو اس ذہنی قرب سے نجات دلائیں.
ہم اس احتجاجی تحریک کے شروع دن سے کہہ رہے ہیں کہ وفاق اور پنجاب میں بلوچ طلبہ کے خلاف انتقامی کاروائی کی جارہی ہے جس میں حفیظ بلوچ جیسے اسکالر کی جبری گمشدگی اور طلبہ کی پروفائلنگ شامل ہیں۔ یہ عمل بلوچ طلباء کو وفاق اور پنجاب کے تعلیمی اداروں سے بے دخل کرنے کی کوشش ہے۔ ہم مسلسل وفاقی حکومت، اعلیٰ عدلیہ اور ریاستی اداروں سے اپیل کررہے تھے کہ بلوچ طلباء کے خلاف جاری انتقامی کاروائی کو بند کیا جائے اور بلوچ کو پڑھنے دیا جائے۔ لیکن انتائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اسلام آباد میں بلوچ طلبہ کی آواز اور اپیل کو سننے کے بجائے مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے اور بلوچ کے خلاف انتقامی کاروائیاں جارہی ہے۔ جس کی واضح مثال حفیظ بلوچ کو منظر عام پر لاکر معافی مانگنے اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے اس پر ہشتگردی جیسے سنگین الزامات عائد کرنا اور بلوچ طلباء کی پروفائلنگ و ہراسمنٹ کا مزید گھمبیر شکل اختیار کرکے جاری رہنا ہے۔
آج ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے کل بروز ہفتہ شام 3:30 بجے ایک احتجاجی مظاہرے کا علان کرتے ہیں۔اگر حفیظ بلوچ کے خلاف عائد کردہ من گھڑت الزامات جلد از جلد واپس نہیں لیے گئے اور حفیظ بلوچ کو باعزت طریقے سے بری نہیں کیا گیا اور بلوچ طلباء کی پروفائلنگ بند نہیں کی گئی تو ہم ایک بار پھر اپنی احتجاجی تحریک کو زیادہ شدت سے شروع کریں گے جس کی تمام تر ذمہ دار وفاقی حکومت، یونیورسٹی انتظامیہ اور ریاستی اداروں پر عائد ہوگی۔
پریس کانفرنس میں انسانی حقوق کارکن اور وکیل ایمان مزاری بھی موجود تھے۔