بلوچی زبان کے نامورادیب،ماہر لسانیات،دانشور، برزگ سیاستدان اور بلوچ پیپلز کانگریس کے سیکریٹری جنرل صدیق آزاد بلوچ نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے منعقدہ 10 مارچ 2022 کے 49 ویں اجلاس میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق خطاب کرتے ہوئے دنیا کی مہذب اقوام اور ذمہ دار حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ آگے آئیں اور مظلوم بلوچ قوم کی مدد کے لیے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کریں اور بلوچستان میں اس غیر انسانی، غیر اخلاقی، غیر قانونی فوجی جارحیت کو رکوائیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں احتجاج اور آگاہی مہم چلائی گئی ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ پاکستانی فوج کی طرف سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچ عوام کے ساتھ وحشیانہ سلوک اور نسل کشی اور ان کی سرزمین سے بے دخلی کے بارے میں پوری دنیا کے باشعور لوگوں کو آزاد میڈیا کے ذریعے آگاہ کیا گیا ہے۔
بلوچ نسل کشی کیلئے کئی اقسام کے غیر انسانی حربے استعمال کیے جا رہے ہیں، جن میں سے ایک جبری گمشدگی اور بعد ازاں فوج کے ٹارچر سینٹرز میں قتل ہے۔گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے باہر پولیس نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلباء پر وحشیانہ تشدد کیا جو اپنے ساتھیوں کی گمشدگی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، لیکن میڈیا نے معمولی واقعہ سمجھ کر اس کی کوریج نہیں دی۔ اسی طرح مظاہرے کے دوران بلوچ طلباء پر پولیس کے حملے پر کسی پاکستانی سیاسی جماعت نے ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
صدیق آزاد بلوچ نے کہا کہ بلوچ طلبا بلوچستان کی پرتشدد صورتحال سے بھاگ کر پرامن ماحول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے پنجاب گئے ہیں لیکن وہاں کی سرزمین بھی ان کے لیے جہنم بن چکی ہے۔اب وہ کہاں جائیں؟ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے۔پاکستانی آئین کے مطابق ہر کسی کو جمع ہونے اور مظاہرہ کرنے کا حق حاصل ہے لیکن یہ حق صرف کاغذ پر لکھا ہوا ہے۔ جبری پابندیوں اور سخت پالیسی کی وجہ سے پاکستانی صحافی سرکاری حکام کے لیے ذاتی معاون کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک طویل عرصے سے بلوچ عوام کے ساتھ ہونے والے وحشیانہ سلوک پر سب نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔فوجی جرنیل اور سیاسی حکام پورے بلوچستان میں خوف کی فضا پیدا کرکے اصل مسائل سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔سماجی ارتقاء کو روک کر مصنوعی معاشرہ بنانے کا عمل جاری ہے۔ بلوچی ادبیات، تاریخ اور زبان پر بھی مکروہ حملے ہورہے ہیں، اور فوجی ایجنسیوں کے پالے ہوئے خودساختہ لکھاریوں کے توسط سے ایک بناوٹی تاریخ، من گھڑت ادبیات اور مصنوعی زبان بنایاجارہے۔
صدیق آزاد بلوچ نے کہا کہ عوامی سیاست ایک ممنوعہ موضوع بن چکا ہے، سیاسی جماعتوں کے کردار بدل چکے ہیں اور تقریباً تمام جماعتوں کو این جی اوز کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ بلوچستان میں وقوع پذیر ہونے والے طوفان سے پہلے ایک خوفناک اور معنی خیز خاموشی طاری ہے۔ پاکستان میں بلوچ اور غیر بلوچ، بیشتر سیاسی رہنما خاموش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ حکمران بلوچستان کے سیاسی مسئلے کو غیر سیاسی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل سیاسی مذاکرات کا اعلان ہوا تھا لیکن فوجی جرنیلوں کی ناپسندیدگی کے باعث وہ اعلان دم توڑ گیا ہے۔ بلوچستان میں امن اور حقوق کی بحالی کے لیے کمیٹی قائم کرنے کے ڈرامے کی بازگشت اب سنائی نہیں دیتی۔
صدیق آزاد بلوچ نے کہا کہ کچھ لوگوں نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے، جو پاکستان کی جابر ریاست کے ظلم کا شکار ہیں، جابر ریاست کی توجہ مبذول کروانے کیلئے تربت مکران سے کوئٹہ تک پیدل مارچ کا سفر شروع کیاہے۔ عوامی احتجاج مہذب معاشروں اور جمہوری حکومتوں کو متاثر کرتا ہے۔ پاکستان جیسی غیر جمہوری ریاستوں اور وحشی حکمرانوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کئی سالوں سے بلوچستان کے عوام مختلف طریقوں سے پرامن احتجاج کر رہے ہیں۔ مگر اسکا کوئی فائدہ مند نتیجہ اب تک سامنے نہیں آیاہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ میں سے بہت سے لوگوں کو وہ پرامن بلوچ لانگ مارچ یاد ہوگا جو 27 اکتوبر 2013 کو شروع ہوا تھا اور 28 فروری 2014 کو اسلام آباد پہنچا تھا۔وہ مارچ ایک عالمی ریکارڈ پیدل مارچ تھا جس میں 72سالہ ماما قدیر، 7 سالہ علی حیدر اور لا پتہ افراد کے مائیں، بہن، اور بھائی شامل تھے۔
صدیق آزاد بلوچ نے کہا کہ مارچ کے شرکاء نے اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے دفتر کو لاپتہ افراد، ٹارگٹ کلنگ، جبری گمشدگیوں اور دیگر گھناؤنے جرائم میں ایجنسیوں کے کردار سے متعلق ایک یادداشت پیش کی تھی۔درخواست گزاروں کو یقین دلایا گیا تھا کہ ان کی درخواست کو فوری طور پر نیویارک میں سیکرٹری جنرل کے دفتر اور جنیوا میں انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر کو فالو اپ کے لیے بھیج دیا جائے گا۔لانگ مارچ کرنے والوں کو یورپی یونین کے دفتر اور امریکی سفارت خانے نے بھی مدعو کرکے، لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔
لیکن حکومت پاکستان نے لانگ مارچ کے شرکاء کو کوئی مثبت جواب نہیں دیا تھاجنہوں نے ملک بھر میں اپنے پرامن احتجاج سے تاریخ رقم کی تھی۔ بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے معاملات پر پاکستانی حکومت کی بے حسی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان معاملات میں حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے اور وہ ریاستی خفیہ اداروں اور فوج کی سرگرمیوں کو کنٹرول نہیں کرنا چاہتی ہے یا کنٹرول کرنے سے بے بس ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہزاروں بلوچوں کو زبردستی اغوا اور لاپتہ کرنے کے گھناؤنے جرم میں ملوث فوجی اور خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔ پاکستانی حکومت خضدار اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں پائی جانے والی اجتماعی قبروں کے وجود سے بھی غافل ہے۔ اجتماعی قبروں کی موجودگی کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹیوں نے ابھی تک اپنے نتائج شائع نہیں کیے ہیں۔ جنوری 2014 میں خضدار کے علاقے توتک سے تین اجتماعی قبریں ملی تھیں جن میں کم از کم 169 لاشیں تھیں۔
صدیق آزاد بلوچ نے کہا کہ دریں اثنا، فوجی آپریشن بلا روک ٹوک اور بلا تعطل جاری ہے۔گزشتہ چند ہفتوں کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں سے متعدد افراد کو پاکستانی فوج نے زبردستی اغوا کیا ہے۔2014 کے تاریخی اور انتہائی پرامن لانگ مارچ کے بعد پاکستان کی فوجی دہشت گردی کم ہونے کے بجائے مزید تیز ہو گئی ہے۔ کیونکہ پاکستان خود کو کسی بین الاقوامی ادارے کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتا بلکہ وہ خود کو پوری دنیا کا لاڈلا سمجھتا ہے، اس لیے کسی بھی جرم اور تمام بین الاقوامی ذمہ داریوں سے بالاتر ہے۔
آج بلوچ عوام کو عمر، پیشہ یا جنس سے قطع نظر روزانہ زبردستی اغوا اور لاپتہ کیا جا رہا ہے۔لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں جنگی چوکیاں اور فوجی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔میدانی علاقوں کو کنٹرول کرنے اور ان کی نگرانی کے لیے پہاڑی چوٹیوں پر چوکیاں قائم کی گئی ہیں اور زمینی مواصلات اور نقل و حمل کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کیے جاتے ہیں۔ بعض مقامات پر مسلح ڈرون حملے بھی کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ایک طویل جنگ کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، لیکن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ بلوچ اپنی سرزمین کے حق ملکیت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے۔وہ اپنی مادر وطن کے دفاع اور باوقار زندگی کے حصول کے لیے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے تصور سے بھی زیادہ قربانیان دینے کیلئے ہمہ وقت آماداہ ہیں۔
صدیق آزاد بلوچ نے کہا کہ میں آپ سب سے گزارش کرنا چاہتاہوں ہے کہ آپ سنجیدگی سے غور کریں، بلوچستان کے لوگوں کو کیا کرنا چاہیے اور پاکستانی ظلم و بربریت کے پیش نظرآخر وہ کہاں جائیں؟ان کی سرزمین بدترین انسانی المیوں کا مرکز بن چکی ہے جہاں باوقار زندگی کی کوئی ضمانت نہیں۔لہٰذا ہم دنیا کی مہذب اقوام اور ذمہ دار حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ آگے آئیں اور مظلوم بلوچ قوم کی مدد کے لیے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کریں اور بلوچستان میں اس غیر انسانی، غیر اخلاقی، غیر قانونی فوجی جارحیت کو رکوائیں۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی اصولوں اور ضوابط کے مطابق عملی اقدامات کریں اور دہشت گرد ریاست پاکستان پر سفارتی، تجارتی اور اقتصادی پابندیاں لگائیں۔ہم آزاد میڈیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بلوچ نسل کشی، جبری اغوا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کریں۔اسی طرح ہم دنیا بھر کے دانشوروں اور ادیبوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان کے مظلوم اور پسے ہوئے لوگوں کو تنہا نہ چھوڑیں بلکہ اپنے قلم اور فکری تحریروں سے ان کی مدد کریں۔