بیرونِ ملک مقیم پاکستانی فوج کے ناقدین کوجان کا خطرہ ہے، ایف بی آئی

0
532

بیرونِ ملک مقیم یا سیاسی پناہ لینے والے کئی پاکستانیوں اور بلوچستانیوں نے جو فوج اور اس کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جینس (آئی ایس آئی) پر کڑی تنقید کرتے ہیں دعویٰ کیا ہے کہ انہیں امریکہ، برطانیہ فرانس اور نیدر لینڈز کے حُکّام نے مشورہ دیا ہے کہ“اپنی حفاظت و سلامتی سے متعلق“خصوصی احتیاط” کریں۔

برطانوی پریس کے مطابق برطانیہ اور یورپ میں انسدادِ دہشت گردی سے متعلق اداروں نے پاکستانی فوج، خفیہ اداروں، حکومت اور ریاست پر تنقید کرنے والے کئی جلاوطن پاکستانی صحافیوں،سیاسی ورکرز،دانشوروں اور سرکردہ ناقدین کو خبردار کیا ہے کہ ملک سے باہر بھی ”اُن کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں ”۔

امریکی نشریاتی ادارے ”وائس آف امریکہ“ سے گفتگو میں ان افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی زندگی اس لیے خطرے میں ہے کیوں کہ وہ پاکستان کی فوج اور خفیہ اداروں کی کارکردگی پر نکتہ چینی کرتے ہیں۔

پاکستان کی حکومت اور خفیہ اداروں پر تنقید کرنے والے ان افراد کے تحفظ کے حوالے سے خبریں کئی ماہ سے برطانوی پریس میں شائع ہو رہی ہیں۔ برطانوی اخبار دا گارڈیئن کے مطابق یورپی سیکورٹی اداروں نے ایسی وارننگز دوبارہ ایک ایسے وقت جاری کی ہیں جب 29 جنوری 2022 کو برطانوی عدالت نے ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری کو نیدر لینڈز میں خود ساختہ جلاوطنی گزارنے والے ایک پاکستانی بلاگر کے قتل کی سازش کا مجرم قرار دیا ہے۔

اس مقدمے کی دستاویزات کے مطابق لندن کی کنگسٹن کراؤن کورٹ میں وکیل استغاثہ ایلیسن مورگن کیو۔ سی۔ کا کہنا تھا کہ“قتل کی یہ سازش پاکستان میں تیار کی گئی۔”جس کے تحت جون 2021 میں نیدرلینڈز کے شہر روٹرڈیم میں مقیم پاکستانی بلاگر احمد وقاص گورایہ کو قتل کرنے کے منصوبے میں پاکستانی نژاد برطانوی شہری گوہر خان کو“کرائے کے قاتل”کے طور پر رقم ادا کی گئی جس نے لندن سے روٹرڈیم جاکر وقاص گورایہ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔”

جیوری نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے گوہر خان کو قتل کی سازش کا مجرم قرار دیا۔ گیارہ مارچ کو اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

گوہر خان کو مجرم پائے جانے کے بعد میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانوی حُکّام نے جن افراد کو“خطرات”سے آگاہ کیا گیا ہے اُن میں ڈاکٹر عائشہ صدیقہ بھی شامل ہیں۔

“واراسٹدیز”کے موضوع پر کنگز کالج برطانیہ سے پی ایچ ڈی کرنے والی ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی وجہ شہرت تو اُن کی شہرہ آفاق کتاب“ملٹری انکاررپوریٹڈ”ہے جس میں انہوں نے پاکستانی فوج کے اقتصادی مفادات کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کی ہے۔ وہ واحد سویلین اور خاتون ہیں جو پاکستان کی بحری فوج کی ڈائریکٹر آف نیول ریسرچ رہی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا کہ ”“2016 سے ریاست کے مزاج میں کافی سختی اور درشتگی آگئی ہے کہ ہر وہ آواز جو اُن کی آواز سے نہیں ملتی اُسے خاموش کردیا جائے۔ گورایہ کے مقدمے نے یہ تو واضح کردیا ہے کہ وہ (پاکستانی) لوگ جو ملک سے باہر ہوتے ہوئے بھی پاکستان کی حکومت یا ریاست کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں اُن کو دھمکایا جاتا ہے اور ان کی سیکورٹی کے مسائل ہیں۔

واضع رہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ساجد حسین اور کریمہ بلوچ جو سوئیڈن اور کینیڈا میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے ان کی موت بھی معمہ بنی ہوئی ہے۔ان کے اہلخانہ ان کی اموات کو پاکستانی نٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کا ایک قتل منصوبہ قرار دے چکے ہیں۔

انتالیس ساجد حسین بلوچ کراچی میں انگریزی اخبار ”دی نیوز” کے رپورٹر تھے۔ انہوں نے دو ہزار سترہ میں سوئڈن میں سیاسی پناہ حاصل کی تھی جہاں وہ ’بلوچستان ٹایمز‘ نامی ایک نیوز ویب سائٹ بھی چلا رہے تھے۔ وہ مارچ دو ہزار بیس میں لا پتہ ہوئے اور کچھ روز بعد اپریل میں ان کی لاش اپسالہ کے علاقے میں دریا سے ملی تھی۔ تاہم پولیس نے اسے واردات قرار نہیں دیا بلکہ ان کا اندازہ تھا کہ یہ حادثہ یا خودکشی تھی۔

مگر ساجد بلوچ کے خاندان، صحافیوں کی عالمی تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں سب نے ہی سوئیڈش پولیس کے سرکاری موقف سے اتفاق نہیں کیا۔

وایس آف امریکہ کے ساتھی ادارے ریڈیو فری یورپ – ریڈیو لبرٹی”کی ایک خبر کے مطابق صحافتی آزادی پر نظر رکھنے والے ادارے رپورٹس ودآوٹ باڈرز کے ایشیا پیسیفک خطے کے ڈائریکٹر ڈینیئل بیسٹارڈ کا کہنا تھا کہ،

”ہر سراغ اشارہ کر رہا ہے کہ یہ ایک جبری گمشدگی تھی”۔

”تنظیم نے سوئیڈش پولیس سے مطالبہ کیا کہ اس ہلاکت میں ”قتل کا امکان رد نہ کیا جائے”۔

اسی طرح سینتیس سالہ کریمہ بلوچ، انسانی حقوق کی سرکردہ کارکن اور بلوچ قوم پرست تھیں۔کریمہ بلوچ نے 2006 میں بلوچ اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن (بی ایس اوآزاد) میں شمولیت اختیار کی اور 2015 میں بی ایس او کی تاریخ کی پہلی خاتون سربراہ مقرر ہوئیں۔ اسی برس ریاست کی جانب سے دہشت گردی کے الزامات کے بعد وہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے کینیڈا پہنچیں۔

20 دسمبر 2020 کو وہ کینیڈا میں“لاپتہ”ہوگئیں۔ دو دن بعد 22 دسمبر کو اُن کی لاش ٹورنٹو واٹر فرنٹ میں تیرتی ہوئی ملی۔

کینیڈئین پولیس نے بھی کسی“گڑبڑ”کا امکان رد کرتے ہوئے اس پُر اَسرار موت کو“ڈوب کر ہلاک”ہونے کا واقعہ قرار دیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here